کراچی سے لاپتہ ہونے کے بعد قتل کیے گئے مصطفیٰ عامر کے مقدمے کی تفتیش کی نگرانی والے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سی آئی اے مقدس حیدر کا کہنا ہے کہ مقدمے کے تمام شواہد اکھٹے کر لیے ہیں، گواہان مکر جائیں تو بھی اس مقدمے کوعدالت میں ثابت کر سکتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ مقدمے کے بنیادی شواہد جیسا کہ ڈی این اے، موبائل کی برآمدگی، خون کے نمونوں سمیت تمام شواہد اکھٹے کر چکے ہیں۔
گواہان کو پولیس کی تحویل میں نہ رکھے جانے کے سوال کے جواب میں ڈی آئی جی سی آئی اے مقدس حیدر نےانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’دو گواہان سے 164 کا بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں، تاہم مصطفیٰ عامرقتل مقدمے میں صرف گواہان پر انحصار نہیں کر رہے۔ اس کے علاوہ ہمارے پاس بیشتر شواہد ہیں جیسے کہ لاش کا برآمد ہونا، ڈی این اے میچ ہونا، موبائل فون کی ریکوری اور خون کے نمونے وغیرہ۔
’تفتیش کو تقریباً مکمل کر چکے ہیں، امید ہے کہ ہفتہ یا دس دن میں چالان مل جائے گا۔‘
یہ مقدمہ اغوا برائے تاوان سے شروع ہوا تھا، اب تک اس مقدمے میں کیا پیش رفت ہوئی اسی حوالے سے مقدس حیدر نے بتایا کہ ’ملزم ارمغان کے ساتھی شیراز بخاری اورملازمین غلام مصطفیٰ اور ذوہیب، مصطفیٰ عامر قتل مقدمے کے گواہان ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’گواہان میں شامل غلام مصطفیٰ اور ذوہیب کے مطابق انہوں نے مصطفیٰ عامر کے حلیے کی شناخت کی تھی، مصطفیٰ کی گاڑی دیکھنے کا بھی اعتراف کیا، ساتھ ہی گن شاٹ کی آواز بھی سنی اور کارپٹ سے خون کے دھبے بھی صاف کیے تھے۔‘
اس سوال پر کہ ارمغان کے گھر پر چھاپہ مارے جانے کے بعد بھی لیپ ٹاپ کا فرانزک بروقت نہیں ہوسکا، جبکہ ایف آئی اے سے دیر سے رابطہ کیوں کیا گیا، پر ڈی آئی جی مقدس حیدر کا کہنا تھا کہ ’ابتدا میں ہم صرف اغوا برائے تاوان اور قتل پر تفتیش کر رہے تھے، واقعات کو ثابت ہونے میں وقت لگا جس کے بعد ایف آئی اے سے رابطہ کیا۔
’اس وقت اندازہ نہیں ہوا تھا کہ ارمغان کے گھر میں موجود لیپ ٹاپ پر کیا ہو رہا تھا اور ابھی بھی ہمیں علم نہیں کہ وہ لیپ ٹاپ کس لیے تھے، گو کہ کچھ چیزیں زبانی معلوم ہوئیں کہ ایک کال سینٹر میں فراڈ کا کام ہوتا تھا لیکن مستند اور درست انداز میں تب ہی واضح ہو گا جب ایف آئی اے کی رپورٹ سامنے آئے گی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو نے مقدس حیدر سے سوال کیا کہ تاوان کے لیے آئی واٹس ایپ کال کا ذکر عدالت میں کیوں نہیں کیا گیا اور کیا یہ کال ارمغان نے ہی کی تھی، جس پر انہوں نے بتایا کہ ’وہ ایپ سے بنایا گیا نمبر تھا جس سے تاوان کی کال کی گئی اور یہ ایک اہم حصہ تھا اس مقدمے کا، تاہم عدالت میں اس لیے تذکرہ نہیں کیا گیا کہ یہ سوال چالان کے بعد ٹرائل میں کیا جائے گا، ابھی تو عدالت سے صرف ریمانڈ کے لیے استدعا کی جا رہی ہے۔‘
کوریئر سروس کے حوالے سے ڈی آئی جی مقدس حیدر کا بتانا تھا کہ ’ابھی تک کوریئر کمپنیز کا معلوم نہیں ہوسکا کہ کس کوریئر کمپنیز کے ذریعے منشیات کا دھندا چل رہا تھا اور نہ ہی کسی کورئیر کمپنی سے رابطہ کیا، ہم اغوا اور قتل پر توجہ دے رہے ہیں اور اے این ایف سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔‘
ڈی آئی جی کا مزید کہنا تھا کہ ’اب تک کی تفتیش کے مطابق مصطفیٰ عامر قتل مقدمے سے کسی لڑکی کا کوئی تعلق نہیں تھا زوما کو شامل تفتیش کیا گیا تھا لیکن زوما کا بھی مصطفیٰ عامر قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
پولیس کو دیے گئے بیان کے مطابق: ’ارمغان کی مصطفیٰ عامر کے ساتھ ذاتی رنجش تھی اور مصطفیٰ عامر سےارمغان حسد رکھتا تھا جبکہ لڑکی کے معاملات میں شک و شبہ بھی رکھتا تھا، ابتدائی طور پر ارمغان نے اعتراف جرم نہیں کیا لیکن ثبوت سامنے آنے کے بعد ارمغان نے اعتراف جرم کیا اور پورا واقعہ بیان میں ریکارڈ کروایا۔
مصطفیٰ عامر کے قتل کا گواہ ہوں لیکن ملزم نہیں، میں بےبس تھا: شیراز بخاری
پیر کو جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی عدالت میں مصطفیٰ عامر کے اغوا اور قتل میں گرفتار ملزم شیزار کو دفعہ164 کے تحت اعترافی بیان ریکارڈ کروانے کے لیے عدالت میں پیش کیا گیا۔
ملزم شیراز نے عدالت کو دیے گئے بیان میں کہا کہ ’اعترافی بیان کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے، مجھے کہا گیا کہ اعتراف کرو گے تو سزا کم ہو جائے گی۔ مصطفیٰ قتل مقدمے کا واحد گواہ ہوں لیکن پولیس کی جانب سے اعترافی بیان کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔‘
ملزم شیراز نے عدالت کو بتایا کہ میں ملزم نہیں ہوں میں واحد چشم دید گواہ ہوں ارمغان نے میرے سامنے مصطفیٰ کا بےدردی سے قتل کیا، میں بے بس اور لاچار تھا اس مقدمے میں مجھے پھنسایا جا رہا ہے۔
دوران سماعت ملزم شیراز نے یہ بھی کہا کہ ملزم ارمغان نے لوہے کی راڈ سے مصطفیٰ کو مارا اور مجھے گن پوائنٹ پر بلوچستان لے گیا، ملزم ارمغان نے بلوچستان لے جا کر مصطفیٰ کی نعش اور گاڑی کو آگ لگا دی۔
اس کے بعد عدالت نے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ ملزم اعترافی بیان نہیں دینا چاہتا لہٰذا تفتیشی افسرکی درخواست مسترد کی جاتی ہے۔
مصطفیٰ عامر قتل کیس کا پس منظر
مصطفیٰ عامر قتل مقدمے، چھ جنوری کو لاپتہ ہونے والے 27 سالہ مصطفیٰ عامر کو مبینہ طور اغوا کے بعد قتل کیا گیا تھا۔ آہستہ آہستہ مقدمے کی کڑیاں کھلنا شروع ہوئیں جس کے بعد پولیس کو مصطفیٰ کی جھلسی ہوئی لاش بلوچستان میں حب کے علاقے دہریجی سے ملی۔
کراچی پولیس نے جمعہ 14 فروری کو بتایا ہے کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) سے گذشتہ ماہ چھ جنوری کو لاپتہ ہونے والے نوجوان مصطفیٰ عامر کو ان کے دوستوں نے قتل کرنے کے دو روز بعد لاش حب چوکی کے قریب گاڑی میں رکھ کر اسے آگ لگا دی تھی۔