عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے گذشتہ روز پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ مںظور پشتین کی پشتون سیاسی لیڈران کو اتحاد کی پیشکش پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ وہ پی ٹی ایم کی پشتونوں کے مسائل متفقہ طور پر حال کرنے کی پیشکش کو سراہتے ہیں۔
اے این پی کے مرکزی دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں اسفندیار ولی خان کا کہنا تھا کہ پی ٹی ایم کے جو مطالبات ہیں وہ اے این پی کے منشور کا حصہ ہے اور انھوں نے روز اول سے اس تنظیم کے مطالبات کی حمایت کی ہے۔
اسفندیار ولی کے بیان پر رکن قومی اسمبلی اور پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ نے ٹوئٹر پر پشتو میں لکھا کہ ’اتفاق ضروری ہے ورنہ ختم ہو جائیں گے۔‘
یہ بیان اس وقت آیا ہے جب پی ٹی ایم کے بنوں جلسے میں منظور پشتین نے کہا تھا کہ وہ پشتونوں کے مسائل حل کرنے کے لیے پشتونوں کے سیاسی لیڈران جس میں اسفندیار ولی، مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، آفتاب شیرپاؤ اور دیگر کے ساتھ بیٹھ کر اتحاد و اتفاق سے آگے جانا چاہتے ہے۔
تاہم ماضی میں اے این پی کے رہنماؤں کی جانب سے پی ٹی ایم پر مخلتف الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ کچھ ہفتے پہلے اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ’پی ٹی ایم پاکستانی اداروں کی سپورٹ سے چل رہی ہے اور یہی وجہ تھی کہ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی ایم سے وابستہ محسن داوڑ اور علی وزیر وزیرستان سے کامیاب ہوئے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح گذشتہ ہفتے اے این پی کے سربراہ اسفندیار ولی خان نے مشال ریڈیو کو ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’پی ٹی ایم پاکستانی اداروں کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ پی ٹی ایم کو سپورٹ نہیں کرتے کیونکہ اے این پی نے عدم تشدد کی بات کی ہے اور اسی پر ہمارا اور پی ٹی ایم کے درمیان اختلاف ہے۔‘
کیا اے این پی کا بیانیہ تبدیل ہو رہا ہے؟
بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں پی ٹی ایم چونکہ ایک پشتون نیشنلسٹ موومنٹ ہے اور پشتونوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو یہی وجہ ہے کہ دیگر نیشنلسٹ پارٹیاں اس تنظیم کو اپنی سیاست کے لیے خطرہ سمجھتی ہیں۔
جبکہ کچھ تجزیہ کاروں کے خیال میں اے این پی اور پی ٹی ایم کے اس طرح کے بیانات کا وہ کوئی تتیجہ نہیں دیکھتے۔ صحافی و تجزیہ کار شمیم شاہد کہتے ہیں کہ اے این پی کے سربراہ کا بیان نیا نہیں اور اے این پی نے ہمیشہ اس طرح کے اتحاد کے بیانات دیے ہیں لیکن مجھے نہیں لگتا کہ پی ٹی ایم اور اے این پی ایک پیج پر آئیں گے۔
شمیم شاہد نے بتایا کہ ان کے خیال میں کسی بھی علاقے اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے سیاسی قوتوں کا اتحاد ضروری ہوتا ہے لیکن پی ٹی ایم کا مسئلہ یہ ہے کہ اس میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنھوں نے ہمیشہ اے این پی کی سیاست کی مخالفت کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ پی ٹی ایم کے اس بیان سے کسی بیانیے میں تبدیلی آئی ہے یا اے این پی نے بیانیہ تبدیل کیا ہے کیونکہ اے این پی کی جانب سے یہ بیان کوئی نیا نہیں ہیں۔‘
صحافی و تجزیہ کار محمود جان بابر کہتے ہیں کہ اے این پی کے بیانیے میں شاید تبدیلی آئی ہو کیونکہ اے این پی یہ بات سمجھتی ہے کہ ان کے سرکردہ لوگ جس میں افراسیاب خٹک اور بشرا گوہر جیسے سینیئر رہنما جو پی ٹی ایم کو سپورٹ بھی کرتے ہیں اور ان کے جلسوں میں بھی شرکت کرتے تھے تو تب اسی طرح کے بیانات اب سامنے آنا شروع ہو گئے۔
انھوں نے بتایا کہ ’اے این پی کو اس بات کا خطرہ ضرور ہے کہ پہلے اس علاقے کے لوگ پشتونوں کے مسائل حل کرنے کے لیے اے این پی کی طرف دیکھتے تھے لیکن اب پی ٹی ایم کی جانب جا رہے ہیں۔‘
ان سے جب پوچھا گیا کہ اے این پی کھل کر پی ٹی ایم کی سپورٹ کیوں نہیں کرتی، جس پر محمود جان بابر نے کہا کہ پی ٹی ایم کا بیانیہ بہت سخت ہے اور ان کے اس بیانیے اور نعروں کے ساتھ کوئی بھی سیاسی پارٹی کھل کر ساتھ نہیں جا سکتی۔
تاہم انھوں کہا کہ اے این پی نے ماضی میں ایسے نعرے ضرور لگائے ہیں جیسے 2018 کے انتخابات میں اے این پی شکست ہوئی تو چارسدہ میں ایک ریلی کے دوران اے این پی کے کارکنان وہی نعرے لگا رہے تھے جو پی ٹی ایم والے لگاتے ہیں۔
محمود جان بابر کے مطابق اے این پی کو معلوم ہے کہ ’اداروں کے خلاف اس طرح سخت موقف لے کر وہ سیاست نہیں کر سکتے کیونکہ وہ پہلے اس کا تجربہ کر چکے ہیں اور اس کا نتیجہ ان کے لیے مثبت ثابت نہیں ہوا ہے۔‘