شمالی سندھ کے ضلع شکارپور کے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ڈاکٹر رضوان احمد خان نے صوبائی وزیر توانائی امتیاز شیخ کے خلاف ایک رپورٹ انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کو ارسال کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ صوبائی وزیر جرائم پیشہ عناصر کے گینگ کی سرپرستی کرنے کے ساتھ ایک شخص کو قتل بھی کرواچکے ہیں۔
20 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں امتیاز شیخ کے خلاف قانونی کاروائی کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔
صوبائی وزیر امتیاز شیخ کا تعلق شکارپور سے ہے۔
رپورٹ میں شکارپور پولیس کے ضلعی سربراہ نے الزام عائد کیا کہ ضلع میں امن و امان تباہ کرنے اور بڑھتے ہوئے جرائم کے ذمے دار صوبائی وزیر امتیاز شیخ، ان کے صاحبزادے فراز امتیاز شیخ اور بھائی سردار مقبول احمد شیخ ہیں۔
رپورٹ میں ڈاکٹر رضوان احمد خان نے موقف اختیار کیا: ’امتیاز شیخ نے ضلع میں اپنا سیاسی اثر و رسوخ قائم کرنے کے لیے جرائم پیشہ افراد کا ایک ونگ قائم کر رکھا ہے، جس کی مدد سے میری ایس ایس پی شکارپور کے عہدے پر دوبارہ تعیناتی پر پولیو ٹیم پر حملہ کروایا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈاکٹر رضوان احمد کے مطابق: ’صوبائی وزیر امتیاز شیخ اپنی مرضی کے ایس ایچ اوز تعینات کروانے کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالتے رہے ہیں تاکہ ان کی مدد سے پولیس کی جاسوسی کروا کر اپنے کرمنل گینگ کو تحفظ دے سکیں۔‘
رپورٹ میں ایس ایس پی شکارپور نے الزام عائد کیا کہ امتیاز شیخ کے کچے کے ڈاکوؤں اور جرائم پیشہ افراد کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔ ’کچے میں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے دوران ہلاک ہونے والے ڈی ایس پی راؤ شفیع اللہ کے کیس پر بھی امتیاز شیخ نے اثرانداز ہونے کی کوشش کی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ شکارپور میں اغوا برائے تاوان اور قتل سمیت تمام جرائم میں تیغانی قبیلے کے افراد شامل ہیں۔ ڈاکو عمران تیغانی اور عبدالواحد تیغانی کو گرفتار کیا گیا جو سردار تیغوخان تیغانی کے رشتے دار ہیں اور سردار تیغو خان تیغانی امتیاز شیخ کا دست راست رائٹ ہے۔‘
رپورٹ میں امتیاز شیخ، ان کے بھائی اور بیٹے کے نمبروں سے جرائم پیشہ افراد کو کی گئی فون کالز کا ریکارڈ بھی شامل کیا گیا ہے۔
الزامات بھونڈے ہیں: امتیاز شیخ
دوسری جانب صوبائی وزیر امتیاز شیخ نے رپورٹ کو ’بھونڈا‘ قرار دیتے ہوئے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کردیا۔
ان کا کہنا تھا: ’میرے اور میرے خاندان پر بھونڈے اور بے بنیاد الزامات عائد کرکے ایس ایس پی شکارپور سستی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ میں ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتا ہوں۔‘
امتیاز شیخ نے مزید کہا: ’شکارپور کے عوام نے مجھے تین مرتبہ منتخب کرکے عزت بخشی ہے۔ ایک پولیس افسر گھناؤنے الزامات عائد کرکے میری ساکھ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ دنیا جانتی ہے کہ ایس ایس پی شکارپور رضوان پیٹرول چوری کے الزام میں ملوث رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اس رپورٹ میں جو فون نمبر دیے گئے ہیں، وہ ہمارے نہیں ہیں۔ اس بے بنیاد اور جھوٹی رپورٹ میں دستخط تک نہیں ہیں تو اس کی کیا حیثیت ہوگی؟ جو ایس ایس پی خود اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور چوری میں ملوث رہیں ہیں، ان کی رپورٹ کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ میں ان کے خلاف عدالت جاؤں گا۔‘
صوبائی وزیر امتیاز شیخ پر اس سے قبل 2005 میں اُس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ ڈاکٹر ارباب غلام الرحیم نے بھی بدعنوانی کے الزامات لگا کر اپنی کابینہ کے ریونیو ڈپارٹمنٹ سے برطرف کردیا تھا۔
امتیاز شیخ اس وقت پیپلز پارٹی میں نہیں تھے۔ اس کے علاوہ ارباب غلام الرحیم نے انہیں ’لینڈ مافیا‘ قرار دیتے ہوئے کہا تاھ کہ وہ اپنے ضلع میں سرکاری اور نجی زمیں پر غیر قانونی قبضہ کرتے ہیں۔