پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں برفانی تودوں سے متاثرہ علاقے وادی نیلم میں پانچ دن کے وقفے کے بعد ایک بار پھر بارشوں اور برف باری کا سلسلہ شروع ہو گیا اور حکام کے بقول موسم کی شدت کے پیش نظر ان علاقوں میں امدادی سرگرمیاں فی الحال روک دی گئی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق شاردہ، کیل، اور وادی گریس میں گذشتہ رات شروع ہونے والی برف باری سے اب تک کئی انچ برف پڑ چکی ہے اور محکمہ موسمیات کے حکام کا کہنا ہے کہ یہ سلسلہ آئندہ چند روز تک جاری رہ سکتا ہے۔
مقامی لوگوں کے مطابق برف باری سے متاثرہ علاقے سرگن سے درجنوں خاندان شدید سردی اور مزید برفانی تودوں کے خدشات کے پیش نظر قریبی محفوظ علاقوں شاردہ، کھری گام دوسٹ وغیرہ کے علاوہ کئی خاندان مظفرآباد بھی منتقل ہوئے۔ تاہم مقامی افراد کا کہنا ہے کہ صرف وہ لوگ منتقل ہوئے ہیں جن کے پاس متبادل رہائش کا بندوبست موجود ہے۔
ان علاقوں میں حکومت نے اب تک زخمیوں کو نکالنے کے لیے فوجی ہیلی کاپٹروں استعمال کیے ہیں اور ان کے ذریعے کچھ خیمے اور خوراک پہنچائی ہے جبکہ سرگن اور ڈھکی چکناڑ کے علاقے کو جانے والے زمینی راستے ابھی بھی بند ہیں۔ یہاں ضرورت کا امدادی سامان اور ادوایات مناسب مقدار میں موجود نہیں۔
برفانی تودوں سے ہونے والی تباہی کے بعد انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ متاثرہ علاقوں سے مقامی لوگوں کی محفوظ مقامات پر منتقلی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کیے جائیں گے۔ تاہم تحصیل شاردہ سے ایک سرکاری افسر نے تصدیق کی ہے کہ حکومت نے ابھی تک متاثرہ علاقوں سے لوگوں کی منتقلی کا کوئی منصوبہ نہیں بنایا۔
حکام کے مطابق اس علاقے میں 'وافر مقدار' میں خیمے اور خوراک پہنچا دی گئی ہے تاہم مقامی لوگوں کے بقول موسم کی ان شدتوں کا مقابلہ خیموں میں ممکن نہیں۔ ان کے بقول شدید سرد موسم اور کئی فٹ برف میں ان خمیوں کو نصب کرنا اور ان میں گزارہ کرنا ممکن نہیں۔
مقامی شہری فضل حسین کا کہنا ہے کہ 'اس علاقے میں سردیوں سے بچنے کا واحد طریقہ لکڑیوں سے جلائی آگ ہے۔ کیا ان خمیوں میں آگ جلائی جا سکتی ہے؟ اگر ایسا نہیں تو ہم لوگ کیسے گزارہ کریں؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم ان خیموں کو نصب کہاں کریں۔ اوپرسے برف باری بھی ہو رہی ہے۔ یہ خیمے برف میں کتنی دیر کھڑے رہیں گے؟'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نیلم میں گذشتہ ہفتے برفانی تودوں سے اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 74 ہو گئی ہے جس میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ضلعی کوارڈینیٹر اختر ایوب کے بقول ان حادثات میں کم از کم 68 افراد زخمی ہوئے جبکہ 190 گھر مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئے۔ اس کے علاوہ 17 دکانیں، نو گاڑیاں، تین موٹر سائیکل اور ایک مسجد بھی برفانی تودوں کی نذر ہوئی۔
مقامی آبادی کے مطابق برفانی تودوں میں تباہ ہونے والے 190 گھروں کے علاوہ کئی درجن مکانوں کے غیر محفوظ ہونے کے پیش نظر لوگوں نے خالی کر دیا ہے اور قریب کے نسبتاً محفوظ مکانوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔
برف باری سے اس علاقے میں بجلی اور ٹیلی فون کا نظام بھی معطل ہو گیا اور ان علاقوں کو جانے والی رابطہ سڑکیں بھی بند ہو گئی۔ اگرچہ ٹیلی فون کا نظام جزوی طور پر بحال ہو گیا ہے تاہم بجلی ابھی بھی بند ہے اور اگلے کئی ہفتوں تک بحالی کے امکانات نہیں۔
متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے والے ایک مقامی صحافی ساجد حسین آزاد نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ متاثرہ علاقے سرگن کے ایک ایک مکان میں کئی کئی خاندان مقیم ہیں۔ 'برفانی تودوں میں تباہ ہونے والے گھروں کے زندہ بچ جانے والے مکین اور ارد گرد سے کئی خاندان جن کے گھر غیر محفوظ تھے وہ انہیں گاوں کے محفوظ گھروں میں منتقل ہو گئے ہیں۔ ایک ایک گھر میں کئی کئی درجن لوگ رہ رہے ہیں اور وہ سخت مشکلات کا شکار ہیں۔'
سرگن کا علاقہ برفانی تودوں کے حوالے سے جانا جاتا ہے اور اس علاقے میں اس سے قبل بھی برفانی تودوں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوتی رہی ہے۔ 2005 میں آنے والے برفانی تودوں میں اسی علاقے کے میتاں والی سیری نامی گاوں میں 46 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
حالیہ دنوں برفانی تودے سے تباہ ہونے والے گاوں سیری بالا کی رہائشی خاتون شمیم بی بی کا کہنا ہے کہ اب اس علاقے میں رہنا ناممکن ہو گیا۔ ’حکومت ہمیں متبادل جگہ دے اور محفوط مقام پر منتقل کرے۔‘