سپریم کورٹ کی جانب سے مشروط رہائی کا حکم دیے جانے کے بعد لاپتہ افراد کی وکالت کرنے والے گرفتار وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کے بیٹے حسنین خواجہ کا کہنا ہے کہ اگر دستاویزات پوری ہوں گئیں تو ان کے والد کی آج ہی رہائی کا امکان ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی رہائی کے فیصلے کے خلاف وزارت دفاع کی درخواست پر آج سماعت کی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم اپنا پاسپورٹ جمع کروا دیں۔ راولپنڈی اور اسلام آباد سے باہر بھی نہ جائیں۔ رہائی کے لیے انہیں اپنے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ بھی دینا ہوگا جب کہ تحقیقات میں بھی تعاون کریں تو انہیں رہا کردیا جائے گا۔
یہ شرائط سن کر کرنل انعام کے وکیل طارق اسد نے کہا کہ ان کے موکل ایک ماہ آٹھ دن سے حراست میں ہیں۔ وہ پاسپورٹ جمع کرا دیں گے، لیکن پھر ان کے موکل کو رہا کردیا جائے۔
بینچ کے سربراہ جسٹس مشیر عالم نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’ٹھیک ہے انعام الرحیم پاسپورٹ بھی جمع کروا دیں گے اور تحقیقات میں بھی تعاون کریں گے، متعلقہ ادارے انہیں رہا کریں۔‘
جس پر وزارت دفاع نے کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم کو مشروط طور پر رہا کرنے کی یقین دہانی کروا دی۔
کرنل انعام کا رہائی سے قبل میڈیکل کیا جائے: سپریم کورٹ
لاپتہ وکیل کرنل انعام کے کیس میں سپریم کورٹ نے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرنل انعام الرحیم کا رہائی سے قبل بینظیر بھٹو اسپتال میں میڈیکل کروایا جائے اور اُن کی صحت سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروائی جائے۔ عدالت عظمی نے مزید ہدایات جاری کیں کہ رہائی کے بعد جب بھی تحقیقاتی ایجنسیاں کرنل انعام کو پوچھ گچھ کے لیے بلوائیں تو انہیں تفتیش میں تعاون کرنا ہو گا۔
دلائل سننے کے بعد عدالت عظمیٰ نے کیس کی سماعت دو ہفتوں تک کے لیے ملتوی کردی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کرنل انعام کے صاحبزادے نے بتایا کہ انہوں نے سپریم کورٹ رجسٹرار آفس میں کرنل انعام کا پاسپورٹ جمع کروا دیا ہے۔ اور لیپ ٹاپ کا پاسورڈ تو اُن کے والد خود ہی دے سکتے ہیں۔ اُن سے جب سوال کیا گیا کہ کیا وہ وزارت دفاع کی تمام شرائط پوری کریں گے تو انہوں نے کہا کہ جو عدالت کے سامنے شرائط رکھی گئیں ہیں اُن پر عمل کر دیا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ پہلے امکان تھا کہ رہائی آج ہی ہو گی لیکن عدالت کے تحریری حکم نامے کے مطابق اب میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش کرنے کو بعد رہائی ممکن ہو سکے تو مزید دو تین دن لگ سکتے ہیں۔
کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم 16 دسمبر 2019 کو لاپتہ ہوئے تھے، جس کے بعد ان کے بیٹے نے تھانے میں درخواست دی اور معاملہ عدالت پہنچا۔ لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بینچ نے یہ ثابت ہونے پر کہ کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم ایجنسیوں کی تحویل میں ہیں، وزارت دفاع کو ان کی رہائی کا حکم دیا۔
جس پر وزارت دفاع نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا۔
کیس کی گذشتہ سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ یہ کیس حساس نوعیت کا ہے اس لیے عدالت چیمبر میں کیس کی سماعت کرے لیکن عدالت اس نکتے پر مطمئن نہ ہوئی۔
اٹارنی جنرل نے یہ دلیل بھی دی کہ کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم ایک جاسوس ہیں اور ان کے غیر ملکی عناصر سے رابطے ہیں، اس لیے ان سے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
تاہم جب سپریم کورٹ نے کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم کو عدالت میں پیش کرنے کا کہا تو اس میں بھی اٹارنی جنرل نے لیت و لعل سے کام لیا۔
کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم کون ہیں؟
کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم پاکستان میں گمشدہ افراد کے مقدمات کی پیروی کے لیے جانے جاتے ہیں، جب کہ وہ فوج سے متعلق مقدمات کی بھی پیروی کرتے رہے ہیں۔
کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم نے سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) اشفاق پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا۔
جب کہ موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے بینچ کو آرمی ایکٹ کی کاپی فراہم کرنے والے بھی یہی کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم تھے۔
یاد رہے کہ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران عدالت عظمیٰ کے استفسار پر اٹارنی جنرل سمیت حکومتی وکلا میں سے کوئی بھی آرمی ایکٹ کی کاپی فراہم نہیں کر سکا تھا۔
کرنل (ریٹائرڈ) انعام الرحیم 2007 میں لیفٹننٹ کرنل کے عہدے سے فوج سے ریٹائر ہوئے۔ یہ وہی سال تھا جب انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف سے تمغہ امتیاز ملٹری وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ ان کا شمار جنرل مشرف کے ناقدین میں ہوتا تھا۔
ان کا آخری مقدمہ عاصم سلیم باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی سی پیک اتھارٹی کے سربراہ کے حیثیت سے تعیناتی کے خلاف تھا۔