ویلز میں حکام نے تصدیق کی ہے کہ اب والدین اپنے بچوں کو مذہب، باہمی تعلقات اور سیکس کے بارے میں جاننے سے نہیں روک سکیں گے۔
ویلز کی حکومت نے کہا کہ بچوں کو پانچ برس کی عمر سے باہمی تعلقات، جنسی(آر ایس ای) اور مذہبی تعلیم دی جائے گی اور اس ضمن میں ان کے والدین کی خواہشات کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا۔
اکتوبر میں ایک منصوبے پر آٹھ ہفتے کی مشاورت کی گئی تھی، جس کا مقصد والدین کا وہ حق ختم کرنا تھا جس کے تحت وہ ویلز میں بچوں کو ایک نئے نصاب تعلیم کے کچھ مضمون پڑھنے سے روک سکتے تھے۔
ویلز کی وزیر تعلیم کرسٹی ولیمز نے کہا کہ منصوبے پر سخت اور گہری تشویش کا اظہار کیا گیا، تاہم تبدیلی کے لیے محتاط اور حساس انداز میں عمل درآمد کی ضرورت ہو گی۔
برطانوی حکومت نے تصدیق کی تھی کہ ستمبر سے پرائمری سکولوں میں باہمی تعلقات اور ثانوی تعلیم کے سکولوں میں سیکس ایجوکیشن لازمی ہو جائے گی، جس کے بعد سکولوں کے باہر ایل جی بی ٹی پلس مضامین کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم برطانیہ میں والدین کو یہ حق حاصل رہے گا کہ بچوں کو 15 سال کی عمر تک سیکس ایجوکیش سے روک سکیں گے۔
منگل کو آفسٹیڈ (آفس آف دی سٹینڈرڈ ایجوکیشن) کی چیف انسپکٹر امانڈہ سپیلمین نے پرائمری سکولوں میں ایل جی بی ٹی پلس(ہم جنس پرست، خواجہ سرا اور دوسری برادریاں) مساوات کے مضامین کے خلاف مظاہروں کو روکنے کے لیے اقدامات نہ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ انھوں نے خبردار کیا کہ کشیدگی’ختم‘ نہیں ہوئی۔
وزیر تعلیم نے کہا کہ ستمبر 2022 سے ویلز کے سکولوں کا نیا نصاب شروع ہونے سے پہلے ٹھوس رائے اکٹھی کی جائے گی اور منصوبے کو آزمائشی طور پر عملی شکل دی جائے گی۔
جنسی صحت کے فلاحی ادارے ٹیرنس ہگنز ٹرسٹ کی پالیسی سربراہ ڈیبی لیکوک نے کہا: ’طلبا کی تعلقات اور جنسی تعلیم کے مضامین تک رسائی کی ضمانت دے کر ویلز دوسرے ملکوں پر لیڈ کر رہا ہے۔
’ہم نے تقریباً چار دہائیوں تک آر ایس ای(تعلقات اور جنسی تعلیم) لازمی قرار دلوانے کے لیے مہم چلائی اور اب تک زیادہ تر نوجوانوں کو سیکس کے بارے میں کھیل کے میدانوں میں ہونے والی سرگوشیوں کے ذریعے پتہ چلتا ہے۔
’ویلز کی حکومت کے فیصلے سے اس مسئلے کے حل میں کچھ پیش رفت ہو گی۔ یہ انتہائی اہم بات ہے کہ مضامین میں ایل جی بی ٹی پلس کو شامل کیا گیا ہے اور ایچ آئی وی اور جنسی صحت پر بھرپور توجہ دی گئی ہے تاکہ نوجوانوں کے پاس وہ علم ہو جس کی مدد سے وہ صحت مند طمانیت بخش تعلقات قائم کرسکیں۔‘
© The Independent