گذشتہ سال کے عورت مارچ میں طرح طرح کے رنگا رنگ پلے کارڈ سامنے آئے۔ ہر پلے کارڈ جلتا انگارہ تھا، جس کی ہتھیلی پہ پڑا اس کا کلیجہ چیر کے نکل گیا۔ ایک پلے کارڈ پر تو ایک مشہور و مقبول اینکر صاحب ہتھے سے ہی اکھڑ گئے۔
اس پلے کارڈ پر سوشل میڈیا کی ستائی ہوئی ایک لڑکی نے کیا ایسا لکھ دیا تھا کہ ایک اوریا صاحب ہی کیا، سبھی ثنا خوانِ تقدیس مشرق کے دل اس پلے کارڈ پر جل بھن کر کباب ہوگئے۔
اس پلے کارڈ پر درج نعرے کا مطلب مردانگی کی پہلی اور آخری علامت کا انکار ہرگز نہیں تھا۔ اس کا سادہ سا مطلب یہ تھا کہ خدا کا دیا جو کچھ بھی ہے اپنے پاس سنبھال کے رکھو۔ اسے اتنا آوارہ بھی مت چھوڑو کہ وقت بے وقت دستک دیے بغیر ہمارے فیس بک ان بکس میں چلا آئے۔ دھکم پیل میں کہیں ہاتھ واتھ دروازے میں آگیا تو پھر کہوگے کہ دروازے میں آگیا۔ احتیاط کا تقاضا بھی یہ ہے کہ اپنے اثاثہ جات اپنی ہی تحویل میں ہوں۔
اس بات کو اینکر صاحب نے اس قدر دل پر لیا کہ ایک پورا ٹی وی پروگرام ہی کر ڈالا۔ پھیپھڑوں کا پورا زور لگاتے ہوئے انھوں نے کہا یہ لوگ دراصل خدا کے نظام کو چیلنج کر رہے ہیں۔ سبحان تیری قدرت! یعنی گہے گریم گہے خندم نمی دانم کجا رفتم۔ یہی نہیں، حیرت کا شدید ترین اظہار کرتے ہوئے انھوں نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے پر عدالتیں کیوں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں؟
اینکر صاحب کے پروگرام کے بعد ہی اندازہ ہو پایا کہ ہمارے ہاں مرد بے کیف و بے ثمر تصویریں صبح کے اخبار کی طرح خواتین کے کھوپچے میں اتنے اطمینان سے کیسے پھینک آتے ہیں. اوریا مقبول جان نے اسے خدا کا نظام کہا تو بات سمجھ آئی کہ یہ محض اخلاقی بحث نہیں ہے، یہ تو ہمارے ہاں کے قدامت پسندوں اور ترقی پسندوں کے بیچ عشروں سے چلی آنے والی نظریاتی جنگ بھی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مذہبی سیاست پر یقین رکھنے والے قدامت پسند سمجھتے ہیں کہ ہمیں نظام کو نافذ کرنے کا حکم ہوا ہے، چاہے کسی کی طبعیت پر کتنا ہی گراں گزرے۔ ترقی پسند طبقہ البتہ یہ کہتا ہے کہ بھائی صاحب، اپنا نظام اپنے پاس رکھو، زبردستی کسی پر تھوپنے کی کوشش مت کرو۔ نظام ایک ایسا معاملہ ہے جسے مسترد کرنے کا اختیار شہری کے پاس کم ہی ہوتا ہے۔ مسترد کرنے کی کوئی بھی کوشش توہین، گستاخی اور دل آزاری کے زمرے میں آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے معاشرے کی سرکش خواتین ’میرا جسم میری مرضی‘ کا نعرہ لگاتی ہیں تو مرد اشرافیہ برا مان جاتی ہے۔ اسے لگتا ہے کہ کچھ خدا بیزار لوگ ہیں جو نظام کے نفاذ سے صریح انکار کر کے خدا کی خدائی کو چیلنج کر رہے ہیں۔
ایسے میں سمجھنا آسان ہو جاتا ہے کہ اینکر صاحب خواتین کی سرکشی کے ساتھ ساتھ عدالت کی مجرمانہ خاموشی پر گہری تشویش کا اظہار کیوں کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے، گستاخی اور دل آزاری وغیرہ کے ارتکاب کرنے والوں کے لیے آئین اور قانون میں ٹھیک ٹھاک بندوبست جو موجود ہے۔
ان دنوں سرمد کھوسٹ کی فلم زیر بحث ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے اورنگزیب عالمگیر کے دور میں آرمینیا کے سرمد کاشانی کی ایک رباعی زیر بحث تھی۔ سرمد کاشانی نے اپنی تین سو سے زیادہ رباعیاں اسی لاہور میں بیٹھ کر لکھی تھیں جہاں سرمد کھوسٹ نے ’زندگی تماشا‘ تخلیق کی ہے۔ سرمد کھوسٹ کی طرح سرمد کاشانی کے خلاف بھی قادری سلسلے کے رہنماؤں نے فیصلہ تحریر کیا تھا جس کا نتیجہ سرمد کا سر قلم ہونے کی صورت میں برآمد ہوا۔
پنجاب حکومت نے سرمد کھوسٹ کی فلم کی سکریننگ تحریک لبیک پاکستان کے علما کی رضامندی سے مشروط کر دی ہے۔ پنجاب حکومت کی طرح اورنگزیب نے بھی سرمد کی رباعی کو نظر ثانی کے لیے مولویوں کی عدالت میں پھینک دیا تھا۔ مولویوں اور اسلامی نظریاتی کونسل نے اتفاق رائے کے ساتھ سرمد کاشانی کو ’یہودی ملحد‘ قرار دے دیا تھا۔ خطاب پہ غور کیا آپ نے؟ قادیانی ملحد۔ یعنی بچ نکلنے کے سارے ممکنہ راستوں پر ناکے لگانے کی پوری پوری صلاحیت اس خطاب میں موجود ہے۔
سرمد کی فلم ’زندگی تماشا‘ کا وہی معاملہ ہو گیا ہے جو عورت مارچ کے مذکورہ پلے کارڈ کے ساتھ ہوا تھا۔ پاکستان میں جنسی تشدد محض ایک جنسی بے راہ روی کا معاملہ نہیں۔ یہ ایک نفسیاتی معاملہ ہے جس کے پیچھے شعوری یا غیرشعوری طور پر ہماری روایتی فکر کھڑی ہے۔ ہم جنسی تشدد کے کسی بھی واقعے کی مذمت تو کرتے ہیں، مگر جنسی تشدد کی وجوہات اور اس کی روک تھام پر بحث چھڑجائے تو ہماری ساری تجاویز مجرم کے حق میں چلی جاتی ہیں۔ مجرم کا گھیراؤ کرنے کے لیے دی جانی والی کوئی بھی تجویز توہینِ مذہب کا عنوان بن جاتی ہیں۔ اس کی چھوٹی سی مثال قصور کی زینب ہے، جو جنسی تشدد کا نشانہ بنی اور پھر بے دردی سے قتل کردی گئی۔
زینب کیس کے لیے تحقیقاتی کمیشن قائم ہوا تو زینب کے والد نے کمیشن کے سربراہ پر اعتراض اٹھاتے کہا وہ اس کمیٹی پر بھروسہ نہیں کر سکتے۔ یہ بات انھوں نے کیوں کہی؟ کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ جس شخص کا عقیدہ ٹھیک نہ ہو وہ انصاف بھی نہیں کر سکتا۔ انجامِ کار زینب کا قاتل وہ شخص نکلا جو اس علاقے کا مشہور نعت خواں بھی تھا۔
ابتدائی طور پر زینب کے والد نے اس خبر کو درست ماننے سے انکار کیا۔ انھوں نے انکار کیوں کیا؟ کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ ایک خوش عقیدہ انسان جو سرکار کی نعتیں بھی پڑھتا ہو، وہ جنسی بے راہ روی کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔ معاف کیجیے گا، یہ زینب کے والد کا دماغی خلل نہیں ہے۔ یہ کتاب کے بیچ سے پڑھایا گیا سبق ہے جس پر ہمارا اجتماعی شعور مطمئن ہو گیا ہے۔
تخلیق کار کے سینے میں حساس دل دھڑکتا ہے۔ سانحہ دیکھ کر ایک طرح سے چپ ہو جاتا ہے، پھر غور کرتا ہے۔ دھیرے دھیرے پردے سرکاتا ہے اور بات بتاتا ہے۔ وہ زنگ آلود تالوں پر سنار جیسی چوٹیں مارتا ہے، جس کا اثر دائم رہتا ہے۔ رنگ بکھیرتا ہے اور منظر کھینچتا ہے۔ ذہنوں پر نقش فرسودہ روایتوں کے نشان مٹاتا ہے، اس کی جگہ نئے اعلامیے درج کرتا ہے۔
ہم ایسے تماش بین منظر کے اسیر ہوتے ہیں اور تخلیق کار پس منظر سے آتا ہے۔ پس منظر سے ابھرنے والے آئینے میں اپنا بھیانک چہرہ دیکھ کر ہم گھبرا جاتے ہیں۔ گھبراہٹ میں جو ہاتھ آتا ہے توڑ دیتے ہیں۔ مہذب معاشرے آئِینے کے احسان مند ہوتے ہیں کہ اس نے ماتھے پر پڑی کالک کی نشاندہی کی ہے۔ آئینے کا شکرانہ یہ ہے کہ چہرے کی کالک مٹادی جائے۔ ہم مگر مزے کے لوگ ہیں۔ کالک نہیں مٹاتے، آئینے زمین پر پٹخ دیتے ہیں۔
مجرم کی سر پر پڑی دستار کا تار کھینچ دو تو یہ توہینِ اسلام ہے؟ دروازے توڑ کر خواتین کے ذاتی دائرے میں ننگ دھڑنگ گھس جانا فحاشی نہیں ہے، خواتین چیخ پڑیں تو نری فحاشی ہے؟
تہذیبِ مشرق کے پاسبان صحافی، زینبوں کے والدین اور شرفا پر چھوڑے گئے مولوی ہماری نسل در نسل چلی آنے والی ایک بڑی المیہ فلم کے چھوٹے چھوٹے کردار ہیں۔ ان سارے کرداروں کو جوڑ کر ہمارے المیے کا ایک بڑا منظر نامہ تشکیل دے دیا جائے تو ’زندگی تماشا‘ سے بہتر عنوان کیا ہو سکتا ہے؟