ایک امریکی اخبار نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ پاسداران انقلاب نے یوکرینی مسافر طیارے کو میزائل سے گرائے جانے کے تین دن تک ایرانی صدر حسن روحانی کو اندھیرے میں رکھا تھا۔
نیو یارک ٹائمز نے ایک تفصیلی مضمون میں بتایا کہ کس طرح پاسداران انقلاب کے سربراہان نے اپنی غلطی پر پردہ ڈالنے کی کوششیں کیں اور جب صدر روحانی کے سامنے حقیقیت کا انکشاف ہوا تو انھوں نے دنیا کو سچائی نہ بتانے کی صورت میں مستعفی ہونے کی دھمکی دے دی تھی۔
رپورٹ کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد ایران بدلہ لینے کی غرض سے سات جنوری کی رات کو عراق میں امریکی فوجی اڈوں پر بیلسٹک میزائل حملے کی تیاری کر رہا تھا۔
ان ہی تیاریوں کے دوران پاسداران انقلاب کے سینیئر حکام نے تہران کے امام خمینی ایئرپورٹ کے قریب ایک حساس عسکری تنصیب کو محفوظ بنانے کے لیے موبائل اینٹی ایئر کرافٹ پر مبنی دفاعی یونٹ نصب کیا، کیونکہ انھیں خطرہ تھا کہ امریکہ ردعمل میں اس حساس فوجی تنصیب کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق: ’ایرانی حکام سے ایک بڑی غلطی یہ سرزد ہوئی کہ انھوں نے امریکی فوجی اڈوں پر حملے اور ممکنہ ردعمل کے پیش نظر تہران ایئرپورٹ پر مسافر طیاروں کی آمد روفت معطل نہیں کی۔‘
پاسداران انقلاب کی ایروسپیس فورس کے کمانڈر جنرل عامر علی حاجی زادے نے یوکرینی طیارہ گرنے کے بعد بتایا کہ ان کے یونٹ نے حکام کو کہا تھا کہ وہ ایران کی ایئرسپیس بند کر دیں لیکن ان کی سنی نہیں گئی۔
پاسداران انقلاب کے سینیئر عہدے داروں اور سول حکام نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ ایئر سپیس بند نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کہیں عوام میں افرا تفری نہ پھیل جائے اور دنیا کو یہ محسوس نہ ہو کہ امریکہ ایران جنگ شروع ہونے والی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکام کو یہ امید بھی تھی کہ مسافر طیاروں کی آمد و رفت جاری رہنے سے امریکہ تہران ایئرپورٹ کے قریب واقع حساس فوجی تنصیب پر حملے سے گریز کرے گا۔
فرناز فصیحی کی اس رپورٹ کے مطابق ایرانی حکام نے ایسا سوچ کر دراصل مسافروں کو ڈھال کے طور پر استعمال کیا۔
آٹھ جنوری کو ایران کے میزائل حملے کے بعد مرکزی فضائی دفاعی کمانڈ نے ایک الرٹ جاری کیا، جس کے مطابق امریکی جنگی طیارے انتقام لینے کے لیے متحدہ عرب امارات کے اڈوں سے اڑان بھر چکے ہیں اور ایران پر کروز میزائل پھینکے جا رہے ہیں۔
ایئرپورٹ کے قریب میزائل لانچر کے ذمہ دار افسر نے یہ الرٹ سن لیے تھے لیکن وہ بعد میں یہ سننے سے رہ گئے کہ یہ الرٹ ٹھیک نہیں اور امریکی طیارے اور کروز میزائل ایران کی جانب نہیں بڑھ رہے۔
جنرل حاجی زادے کے مطابق: ’اس صورت حال میں اس افسر نے جب تہران ایئرپورٹ سے اڑنے والے یوکرینی مسافر طیارے کو اپنے سسٹم پر دیکھا تو الرٹ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس نے اعلیٰ کمان سے یہ ’نامعلوم طیارہ‘ گرانے کی اجازت مانگی۔‘
بدقسمتی سے اس وقت کمیونیکیشن نیٹ ورک جام ہونے یا سنگل نہ ملنے کی وجہ سے اس کا اعلیٰ کمان سے رابطہ نہ ہو سکا، لہٰذا اس افسر نے، جس کا نام ابھی تک افشا نہیں کیا گیا، 30 سیکنڈز سے بھی کم وقفے سے دو میزائل داغ دیے۔
جنرل حاجی زادے جو اس وقت مغربی ایران میں امریکہ پر میزائل حملے کی نگرانی کر رہے تھے، انھیں فون پر صورت حال سے مطلع کیا گیا۔
انھوں نے فوراً تہران پہنچ کر پاسداران انقلاب اور ایرانی فوج کی اعلیٰ کمان کو صورت حال سے آگاہ کیا۔
جنرل حاجی زادے نے جرنیلوں کو نچلے درجے کے افسروں اور سپاہیوں کو یہ سب بتانے سے منع کیا کیونکہ انھیں خدشہ تھا کہ اگر امریکہ نے واقعی کوئی حملہ کر دیا تو ان کے ماتحت اپنی ذمہ داریوں سے چوک سکتے ہیں۔
انھوں نے گذشتہ ہفتے ایرانی نیوز میڈیا کو بتایا کہ یہ فیصلہ قومی سلامتی کے لیے ضروری تھا کیونکہ اس طرح ملکی فضائی دفاع کمزور ہو جاتا۔
طیارہ گرنے کے بعد عسکری قیادت نے خفیہ تحقیقات کرائیں اور بدھ کی رات تک ان پر واضح ہو چکا تھا کہ واقعہ انسانی غلطی کا نتیجہ ہے۔
اس کے بعد ایرانی کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو سچائی سے آگاہ کیا گیا، لیکن ملک کی سیاسی قیادت اور عوام سے بدستور چھپایا گیا۔
اس ساری پیش رفت سے آگاہ پاسداران انقلاب کے افسروں، سفارت کاروں اور حکام نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا کہ سینیئرز کمانڈرز نے حقائق کو طیارے کے بلیک باکس کی مکمل چھان بین اور رپورٹ ریلیز ہونے تک چھپانے کا فیصلہ کیا تھا، کیونکہ ان کے خیال میں بلیک باکس کی مکمل تحقیقات میں مہینوں لگ جاتے اور اس طرح یہ حادثہ میڈیا سے اوجھل ہو جاتا۔
کمانڈروں کو خدشہ تھا کہ بروقت سچائی ظاہر کرنے سے ملک میں شدید ردعمل سامنے آ سکتا ہے اور ایسے میں ملک مزید بحرانوں سے نہیں نمٹ پائے گا۔
مشترکہ مسلح افواج کے ترجمان برگیڈیئر جنرل ابوالفضل شیخرچی نے بدھ کی رات میڈیا پر آ کر کہا کہ طیارے کو میزائل حملے سے نشانہ بنانے کی خبریں ’جھوٹ‘ ہیں۔
یوکرینی تفتیشی ٹیم کے جمعرات کو تہران پہنچنے کے بعد مغربی ملکوں کا دباؤ بڑھا اور کئی ملکوں کے سفارت کاروں نے ایران سے وضاحتیں طلب کرنا شروع کر دیں، جن کے جواب میں بار بار دہرایا گیا کہ میزائل حملے کی خبریں جھوٹ ہیں۔
خود صدر روحانی اور ان کے وزیر خارجہ جواد ظریف کو، جو اب تک اپنی فوج کی غلطی سے لاعلم تھے، متعدد مغربی سفارت کاروں کے فون آئے لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
تاہم، ایرانی سیاسی عہدے داروں کو اتنے سوالات کے بیچ خود تشویش ہونے لگی اور انھوں نے فوجی قیادت سے جواب مانگنا شروع کردیے۔
رپورٹ میں حکام کے حوالے سے مزید بتایا گیا کہ صدر روحانی نے کئی بار فوج کی اعلیٰ قیادت کو ٹیلی فون کیے لیکن کسی نے ان کی کالز کا جواب نہیں دیا۔
اسی طرح صدر روحانی کے وزرا نے فوج میں اپنے رابطوں سے حقیقت جاننے کی کوشش کی لیکن انھیں بھی وہی جواب دیا گیا کہ الزامات جھوٹ ہیں۔
حکومتی ترجمان علی ربی کے مطابق جمعرات کا دن بہت افرا تفری کا دن تھا کیونکہ حکومت نے اس دن کئی بار جرنیلوں کو ٹیلی فون کیے لیکن ایک ہی جواب ملا کہ ’کوئی میزائل نہیں داغا گیا۔‘
پھر جمعے کا دن آ گیا، اس دن حکومتی ترجمان علی ربی نے ایک بیان جاری کیا جس کے مطابق طیارہ مار گرانے کے تمام الزام سراسر جھوٹ ہیں۔
تاہم کچھ گھنٹوں بعد ایران کی اعلیٰ عسکری قیادت نے ایک نجی اجلاس میں صدر روحانی کو حقیقت بتا دی۔
صدر روحانی کے قریبی ساتھیوں کے مطابق صدر کو جب حقیقت بتائی گئی تو وہ انتہائی برہم ہوئے اور مطالبہ کیا کہ دنیا کو فوراً حقیقت سے آگاہ کرتے ہوئے غلطی تسلیم کی جائے۔
نیو یارک ٹائمز کا کہنا ہے کہ اس موقعے پر جرنیلوں نے مزاحمت کی اور کہا کہ حقیقت بتانے سے ملک میں عدم استحکام ہو سکتا ہے۔
جرنیلوں کی مزاحمت دیکھنے پر صدر روحانی نے مستعفیٰ ہونے کی دھمکی دے دی اور کہا کہ بوئنگ کمپنی اور بلیک باکس کی آزادانہ تحقیقات میں حقیقت سامنے آ ہی جائے گی اور اس سے ایران اور حکومت پر عوامی بھروسے کو شدید دھچکہ پہنچے گا۔
جب دونوں اطراف سے ماحول میں کشیدگی بڑھی تو آیت اللہ خامنہ ای کے اندرونی حلقوں نے انھیں کشیدگی سے آگاہ کر دیا۔
خامنہ ای نے اس موقعے پر پیغام بھیجا کہ حکومت سچ سامنے لانے کے لیے سرکاری بیان تیار کرے، جس کے بعد صدر روحانی نے کچھ سینیئر ساتھی سیاست دانوں کو صورت حال سے آگاہ کیا۔حکومتی ترجمان علی ربی جو اب تک انکاری تھی وہ دل برداشتہ ہو گئے۔
ایران کے نمایاں نقاد عباس عابدی کے مطابق شام کو جب انھوں نے علی ربی سے بات کی تو وہ رونے لگے اور کہا کہ ’سب کچھ جھوٹ ہے، میری عزت خاک میں مل گئی۔‘
ہفتے کی صبح سات بجے فوج نے ایک بیان میں اعتراف کیا کہ حادثہ انسانی غلطی سے پیش آیا۔
پاسد ران انقلاب میزائل داغنے والے افسر اور کچھ نچلی سطح کے عہدے داروں کو مورد الزام ٹھہرانا چاہتے تھے لیکن صدر روحانی نے بڑے پیمانے پر واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔
اسی طرح ان کے ساتھیوں نے سوالات کرنا شروع کر دیے کہ صدر کو پورے واقعے سے کیوں اندھیرے میں رکھا گیا۔