ڈی آئی جی ہزارہ ڈویژن مظہر الحق کا کہنا ہے کہ گذشہ ماہ خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کے ایک مدرسے میں نہ صرف آٹھ سالہ بچے سے زیادتی (ریپ) کی گئی بلکہ اس کو زبردستی قید کیا گیا اور سر پر ڈنڈے مارے گئے۔
سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے تحفظ اطفال کے اجلاس میں پیر کو پیش ہونے والے ڈی آئی جی ہزارہ ڈویژن مظہر الحق کا کہنا تھا کہ ملزم قاری شمس الدین سکول میں بھی پڑھاتے تھے اور مدرسے میں بھی۔
انھوں نے کمیٹی کو بتایا کہ بچے کو قید کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور آخر کار مدرسے کے ایک بڑی عمر کے طالب علم نے اس کی مدد کر کے اسے وہاں سے نکالا۔
ڈی آئی جی ہزارہ کا کہنا تھا کہ پولیس روزانہ کی بنیاد پر مختلف کیسز دیکھتی ہے لیکن اس بچے کی حالت دیکھ کر دل پگھل گیا کہ کوئی ایسا کیسے کر سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا: ’یہ پہلا کیس ہے کہ ہم نے مدرسہ سیل کر دیا ہے جس میں 150 بچے تھے۔‘
انھوں نے کمیٹی کو مزید بتایا کہ پولیس نے محکمہ اوقاف سے کہا ہے کہ جو مدرسے رجسٹرڈ نہیں ہیں وہاں ہاسٹل کی اجازت ہرگز نہ دی جائے اور اس کے علاوہ خیبر میڈیکل کالج میں ریپ سے متاثرہ افراد کے ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے لیب بھی بنا دی گئی ہے۔
سینیٹرز کی تجاویز
سینیٹ کی خصوصی کمیٹی برائے تخفظ اطفال کی چئیر پرسن سینیٹر روبینہ خالد نے اجلاس میں تجاویز دیتے ہوئے کہا کہ بچوں سے ذیادتی کے خلاف قوانین بنانے کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کو ساتھ رکھا جائے۔
سینیٹر ثمینہ سعید کا کہنا تھا کہ بچوں سے زیادتی کرنے والے ملزمان کو سخت سزائیں دی جائیں۔ انھوں نے کہا کہ ’جب تک سزائیں سخت نہیں ہوں گی چھوٹے بچوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات کم نہیں ہوں گے۔‘ سینیٹر جاوید عباسی نے نکتہ اٹھایا کہ کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ زیادتی کی صورت میں بچوں کے والدین شرم کے مارے پولیس کے پاس بھی نہیں جاتے اور کبھی گاؤں والے معاملہ سلجھاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات میں 80 فیصد اہل خانہ، اساتذہ اور جاننے والے لوگ ہی ملوث ہوتے ہیں۔
سینیٹر عائشہ رضا نے کہا کہ والدین شرم اس لیے محسوس کرتے ہیں کیونکہ یہ سارا عمل ہی شرمناک ہوتا ہے جس سے والدین ڈرتے ہیں۔ انھوں نے کہا: ’اگر کسی لڑکی کا ریپ ہوتا ہے تو ہسپتال میں بہت مسائل ہو جاتے ہیں۔ اس کے تدارک کے لیے میڈیا میں کونسلنگ کرنے کی ضرورت ہے کہ متاثرہ شخص کو شرم محسوس نہ کرائی جائے بلکہ اس کو سنبھالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سینیٹر رانا مقبول احمد نے کہا کہ اگر کسی بچی یا بچے کے ساتھ زیادتی کا کیس سامنے آئے تو پولیس کو 24 گھنٹوں کے اندر رپورٹ بنانی چاہیے اور مقدمےکا وقت بھی مختص کیا جائے۔ جب روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی تو ہی انصاف کا عمل تیز ہو گا۔
2018 میں کتنے کیسز رپورٹ ہوئے؟
سینٹ کی تحفظ اطفال کمیٹی میں ڈی آئی جی ہزارہ ڈویژن مظہر الحق کی جانب سے پیش کیے جانے اعدا و شمار کے مطابق 2018 میں پاکستان میں تین ہزار آٹھ سو 32 بچوں کے ساتھ زیادتی کے کیسز درج کیے گئے۔ ان میں سب سے زیادہ کیسز، دو ہزار چار سو تین، پنجاب میں درج ہوئے، جبکہ ایک ہزار 16 سندھ میں رپورٹ ہوئے۔
ڈی آئی جی کی پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق بچوں سے زیادتی کرنے والے لوگ زیادہ تر بچوں کے جاننے والے ہی ہوتے ہیں۔
کمیٹی میں اس بات پر زور دیا گیا کہ زیادتی کا شکار بچی اور بچے کا ترجیحی بنیادوں پر میڈیکل چیک اپ کروایا جائے اور پولیس تحقیقات کو ازخود اپنی ذمہ داری سمجھے۔ اس کے علاوہ سکولوں اور مدرسوں میں ماہر نفسیات سکول ٹیچرز اور مولویوں کے انٹرویو کریں جس سے کافی حد تک بیمار ذہنوں کو ٹھیک کرنے میں مدد ملے گی۔
’ترجیحی بنیادوں پر تفتیش‘
تحفظ اطفال کمیٹی میں پیش ہونے کے بعد انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں ڈی آئی جی مظہر الحق کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کے ریپ کیسز میں زیادہ ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے حالانکہ لڑکوں کے ساتھ بھی معاملہ اتنا ہی سنجیدہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی وکیل ملزم قاری شمس الدین کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ وکلا کہتے ہیں کہ وہ غلط عمل کا دفاع کرنا اخلاقی طور پر درست نہیں سمجھتے۔
پولیس کے رویے سے متعلق سوال کے جواب میں انھوں نے مزید بتایا کہ ’ریپ کیسز میں معاشرے کے ردعمل کی وجہ سے پولیس بروقت کارروائی کرتی ہے اور ریپ کیسز کو اب ترجیحی بنیادوں پر دیکھا جاتا ہے۔‘
والدین کیا کر سکتے ہیں؟
تخفظ اطفال کمیٹی کی چئیر پرسن سینیٹر روبینہ خالد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بچوں کے ساتھ زیادتی واقعات میں صلح نہیں ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ والدین کو معاملہ پولیس کے علم میں ضرور لانا چاہیے تاکہ اس حساس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔
انھوں نے والدین کو تاکید کی کہ اپنے بچوں کے معاملے میں کسی پر بھروسہ نہ کریں اور بچہ اگر کسی کی شکایت کرے تو اس کو سنجیدہ لیں۔