مجھے کبھی کبھی ایسے لگتا ہے جیسے اب تک میں کسی دوسرے سیارے پر رہتی رہی ہوں۔ دوستوں کی محفلوں میں کبھی فلموں کی بات ہوتی تو میں چپ کر جاتی تھی۔ وہ جن اداکاروں اور فلموں کے نام لیتے تھے مجھے ان کا علم بھی نہیں ہوتا تھا۔
میں نے جو فلمیں دیکھ رکھی تھیں وہ سب بھارتی فلمیں تھیں یا کوئی ’بہت مشہور‘ انگریزی فلم جیسے کہ ٹائی ٹینک۔ ان محفلوں میں بالی وڈ فلموں کو کچرا سمجھا جاتا تھا تو بس گفتگو کیا کرنی۔ سب کو مسکرا مسکرا کر دیکھتے رہو اور دعا کرو کہ کوئی کسی فلم کے بارے میں رائے نہ پوچھ لے۔ ایسی بیٹھکوں میں بات کرنے کے لیے میں نے انگریزی فلمیں اور ڈرامے دیکھنا شروع کر دیے۔ دو چار فلمیں دیکھیں، اچھی تھیں، مزہ آیا اور ان سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملا، کچھ بالکل ویسی تھیں جیسی ان محفلوں میں بھارتی فلموں کو سمجھا جاتا تھا۔
ایک دوست نے مشہور امریکی ٹیلی ویژن سیریز ’فرینڈز‘ دیکھنے کی بار بار تاکید کی، تو دسمبر میں یہ سیریز دیکھنی شروع کی۔ پہلے سیزن کی دو چار اقساط دیکھیں تو مزہ آنے لگا اور بس پھر دن رات لگا کر دو ہفتوں میں دس کے دس سیزن دیکھ ڈالے۔
’فرینڈز‘ کا پہلا سیزن 1994 میں ریلیز ہوا تھا اور 2004 میں آخری یعنی دسواں سیزن نشر کیا گیا تھا۔ یہ سیریز چھ دوستوں مونیکا، روس، چینڈلر، ریچل، فیبی اور جوئی کے گرد گھومتی ہے۔ مونیکا اور روس بہن بھائی ہیں۔ ریچل مونیکا کی کالج کی سہیلی ہے۔ چینڈلر اور روس روم میٹ ہیں اور فیبی مونیکا کی روم میٹ رہ چکی ہے۔ اس سیریز میں ان دوستوں کی روزمرہ زندگی اور اس دوران ہونے والے اہم واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
ہم جنس پرستی، ہراسانی، سیکس ایجوکیشن، کام کی جگہ کے طور طریقے، اجازت، خود مختاری، ڈیٹنگ، شادی، بے اولادی اور فیمینزم جیسے کئی اہم موضوعات اس سیریز کا حصہ بنے۔ انسان حیران رہ جاتا ہے کہ امریکی اس وقت ان موضوعات پر بات کر رہے تھے جن پر ہم آج بھی بات کرنے سے کتراتے ہیں۔ شاید اسی لیے ان کا معاشرہ آج ہم سے کئی بہتر حالوں میں ہے اور ہم آج بھی ان ہی مسائل کا شکار ہیں جنہیں ترقی یافتہ دنیا کب کا پیچھے چھوڑ چکی ہے۔
سیریز کی ابتدا میں ریچل اپنی شادی سے بھاگ جاتی ہے۔ امیر باپ کی اس بگڑی ہوئی اولاد کو اصل زندگی دکھانے کے لیے مونیکا اسے اپنے والد کے دیے گئے کریڈٹ کارڈز ضائع کرنے کا کہتی ہے۔ ریچل اپنی خود مختار زندگی کا آغاز ایک کافی ہاؤس میں ویٹرس کی نوکری سے کرتی ہے۔ وہاں کام کرتے کرتے وہ ایک دن ایک بڑے فیشن ہاؤس میں اہنے خوابوں کی نوکری بھی پا لیتی ہے۔
مونیکا اور روس بہن بھائی ہیں لیکن پوری سیریز کے دوران اس رشتے کی وجہ سے ان کی دیگر کرداروں سے دوستی پر اثر نہیں پڑتا۔ روس نے کبھی اپنی بہن پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی مونیکا نے کبھی اپنے بھائی کی زندگی پر اپنا حق جتایا۔ مونیکا اور چینڈلر کے رومانوی تعلق کا علم ہونے پر روس کو شاک ضرور لگتا ہے اور وہ غصے میں بھی آتا ہے لیکن جب اسے پتہ لگتا ہے کہ یہ تعلق دونوں کی مرضی سے جڑا ہے تو وہ ان کی خوشی میں خوش ہو جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ساتویں سیزن میں مونیکا اور چینڈلر شادی کر لیتے ہیں۔ ان میں نہ کوئی میاں ہے اور نہ ہی بیوی۔ دونوں ایک دوسرے کی ذات اور پسند نا پسند کا احترام کرتے ہوئے رشتہ نبھاتے ہیں۔ چینڈلر اپنی نوکری چھوڑ دیتا ہے تو مونیکا اس کا ساتھ دیتی ہے اور جب مونیکا چینڈلر کے ساتھ دوسرے شہر منتقل ہونے کی بجائے اپنی من پسند نوکری کی پیشکش قبول کرتی ہے تو وہ برا نہیں مانتا۔
جوئی ایک اداکار ہے۔ وہ آڈیشن پر آڈیشن دیتا رہتا ہے جس میں اکثر وہ ناکام ہو جاتا ہے۔ جوئی کا کردار کھانے سے محبت کی وجہ سے زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ گوگل پر جوئی ٹربیانی کو سرچ کریں تو ایک پیزا کا سلائس بھی سرچ میں دکھائی دیتا ہے جوجوئی کسی بھی وقت کھا سکتا ہے۔
اس سیریز کا سب سے عجیب کردار فیبی کا ہے۔ آپ جن بھی برے حالات کا تصور کر سکتے ہیں، فیبی نے اپنا بچپن اور جوانی ان سے بھی برے حالات میں گزاری ہے لیکن پھر بھی وہ زندگی جینے کے لیے پر امید رہتی ہے۔ ہر منفی صورت حال میں سے مثبت پہلو ڈھونڈنا اور ہر مثبت صورت حال میں سے منفی پہلو ڈھونڈنا فیبی کا کام ہے۔ حیرت انگیز طور پر کبھی کوئی دوست کسی کشمکش میں پھنسا تو اسے اس مشکل سے فیبی نے ہی نکالا۔ فیبی ایک مساج سینٹر پر کام کرتی ہے اور سیریز کے آخر تک اسی پیشے سے جڑی رہتی ہے۔
ایسی پروڈکشن دیکھ کر دل یہ سوال پوچھتا ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کام کیوں نہیں ہوتا؟ کیا ہمارے ہاں وقت نہیں بدلا؟ لوگوں کے مسائل نہیں بدلے؟ ان کا نقطۂ نظر نہیں بدلا؟ کیا ہماری عورت کی زندگی آج بھی مرد کی مرہونِ منت ہے؟ کیا ہمارے مرد اب تک ’مرد نہیں روتا‘ پر قائم ہیں؟
وطنِ عزیز میں تازہ تازہ ’میرے پاس تم ہو‘ ختم ہوا ہے جس میں ایک عورت دو ٹکے کی کہلائی اور اپنے شوہر کو چھوڑنے کے بعد در در کی ٹھوکریں ہی کھاتی رہی۔ خلیل الرحمٰن قمر ہر پروگرام میں ڈرامے کو حقیقی زندگی کی عکاسی بتاتے رہے۔ طاہرہ عبداللہ اور اویس توحید جیسے ترقی پسندوں نے انہیں جدید دور کی جھلک دکھانی چاہی تو وہ ایسے پھنکارے ایسے پھنکارے کہ بس۔
اجی، زمانہ بدل گیا ہے، لوگ بدل گئے ہیں۔ سوشل میڈیا کھولیں، کچھ سرچ کریں، آپ کو ایک نئی دنیا نظر آئے گی۔ ہماری عورتیں اکیلی رہ رہی ہیں، پسند کی شادی کر رہی ہیں، سہیلیوں کے ساتھ ٹرپ پر جا رہی ہیں، مرد چوٹ لگنے پر رو رہے ہیں، ایسے پیشے چن رہے ہیں جو پہلے مردوں کے لیے مناسب نہیں سمجھے جاتے تھے، ہمیں یہ سب ڈراموں اور فلموں میں بھی دیکھنا ہے۔
ہماری نوجوان نسل کو جدید کونٹینٹ چاہیے جو ان کی زندگی سے مطابقت رکھتا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ’فرینڈز‘ آج بھی دیکھا جاتا ہے اور جانے کب تک دیکھا جائے گا۔ ’میرے پاس تم ہو‘ کا تو شاید لوگ اس سال کے آخر تک نام بھی بھول چکے ہوں۔