سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کے جڑواں شہر کوٹری میں قائم ’سندر شیوا منڈلی‘ ہندو مذہب کی کتابیں چھاپنے والا پاکستان کا واحد اور بڑا ادارہ ہے۔
یہ ادارہ کوٹری کے رہائشی لیلا رام خانوانی نے 1962 میں قائم کیا اور 1996 میں لیلا رام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے سنتوش کمار خانوانی اب اس ادارے کو سنبھال رہے ہیں۔
سنتوش نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ ان کا ادارہ 1962 سے اب تک 8200 سے زائد ہندو مت کی مذہبی کتابیں چھاپ چکا ہے۔ ’یہ تعداد صرف موضوعات کی ہے۔ ہر موضوع کی کتاب کی بھی چھ سے آٹھ ہزار کاپیاں چھپتی ہیں، اس طرح اب تک ہم 10 لاکھ سے زیادہ کاپیاں چھاپ چکے ہیں۔‘
ادارے کا انتظام سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد سنتوش نے دفتر کو کوٹری شہر سے حیدرآباد منتقل کر دیا تھا، پرنٹنگ پریس بھی ان کا اپنا ہی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ہندومت کی اکثر مذہبی کتابیں ہندی زبان میں ہوتی ہیں، جنھیں ان کا ادارہ سندھی زبان میں ترجمہ کرنے کے بعد کتاب کی شکل میں چھاپتا ہے۔ سندھی زبان کے علاوہ وہ اردو اور گُرمکھی زبان میں بھی کتابوں کی اشاعت کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آج کے ڈیجیٹل دور میں جہاں ڈائری، کیلنڈر، ادبی کتابوں، رسالوں حتیٰ کہ اخبارات کی اشاعت میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے وہاں سندر شیوا منڈلی کی اشاعت میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے۔ سنتوش کے مطابق 10 سال پہلے کی نسبت اب کتابوں کی چھپائی دگنی ہوگئی ہے۔
’ڈیجیٹل دور نے دیگر اشاعتوں کو کم کیا ہے مگر مذہبی کتابوں کی مانگ میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی مذہبی کتابوں سے عقیدت ہوتی ہے اور وہ کتاب پر اگربتی جلانے کے ساتھ اس کے سامنے جل (پانی) یا دیا رکھتے ہیں جو موبائل فون یا ٹیبلٹ پر ممکن نہیں۔
’لوگ کتاب کو ہاتھ میں پکڑ کر محسوس کرنا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب آبادی میں اضافے اور وقت کے ساتھ بڑھتے ہوئے مذہبی رجحان کے باعث بھی ہمارے یہاں چھپنے والی کتابوں میں اضافہ ہورہا ہے۔‘
ایک اور خیال یہ بھی ہے کہ سندھ میں حالیہ سالوں میں سکھ مذہب کے اضافے کے بعد ہندوؤں میں مذہبی رجحان بڑھ رہا ہے۔
ہندو دھرم میں بچے کی پیدائش کے بعد اس کا مستقبل جاننے کے لیے بنائی جانے والی جنم کُنڈلی سے لے کر، نئے کاروبار کی شروعات، گھر کی منتقلی، چاند اور سورج گرہن اور موسموں کے احوال سے لے کر شادی کے لیے موزوں وقت کا تعین کرنے کے لیے استعمال ہونی والی جنتری کا بھی اہم کردار ہے۔
اسے سندھی زبان میں ’ٹپنو‘ کہا جاتا ہے جو اصل میں ہندی زبان میں ہوتی ہے مگر تقسیم ہند سے پہلے مہاراج تیجو رام شرما نے اس کا سندھی زبان میں ترجمہ کیا جو آج بھی سندھ اور بھارت کے سندھی ہندوؤں میں مقبول ہے۔
سنتوش نے بتایا: ’سندھی ٹپنو صرف اور صرف سندر شیوا منڈلی ہی چھاپتا ہے اور ہمارے یہاں چھپنے والا ٹپنو دبئی، کینیڈا، امریکہ اور بھارت بھی لے جایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ہماری ٹپنو کی سالانہ اشاعت صرف نو ہزار تھی جو اب بڑھ کر 16 سے 18 ہزار تک پہنچ چکی ہے، جبکہ شریمت بھگوت گیتا کی اشاعت بھی آٹھ سے 10 ہزار تک پہنچ چکی ہے۔‘
اس سوال پر کہ کیا ہندو دھرم کی کتابیں چھاپنے پر آپ کو کبھی کسی نے تنگ کیا؟ سنتوش نے جواب دیا کہ ان کی زندگی میں کوئی ایک واقعہ بھی ایسا پیش نہیں آیا جس میں کسی نے انھیں کچھ کہا ہو۔ ’مجھے تو مذہبی تفریق کبھی محسوس ہی نہیں ہوتی، میرا زیادہ تر وقت، بلکہ یوں سمجھیں کہ ہر روز 18 گھنٹے مسلمانوں کے ساتھ گزرتے ہیں مگر آج تک کسی نے کچھ نہیں کہا۔‘