فلسطینی صدر محمود عباس نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ امن منصوبہ مسترد کرنے کے بعد دونوں ملکوں کے ساتھ سکیورٹی سمیت تمام تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق محمود عباس عرب لیگ سے خطاب کے لیے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ہیں۔ عرب لیگ نے ٹرمپ کے امن منصوبے کی مخالفت میں فلسطینی اتھارٹی کی حمایت کی ہے۔
امن منصوبے کے اہم نکات میں، جن کی اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو نے توثیق کی ہے، ایسی غیرفوجی فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا گیا ہے جس میں مقبوضہ علاقے میں تعمیر کی گئی یہودی بستیاں شامل نہ ہوں اور ریاست تقریباً اسرائیل کے کنٹرول میں ہو۔
ٹرمپ کے امن منصوبے پر غور کے لیے بلائے گئے عرب لیگ کے ایک روزہ ہنگامی اجلاس سے خطاب میں فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا: ’ہم نے اسرائیل کو بتا دیا ہے کہ سکیورٹی روابط سمیت فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ کسی قسم کے تعلقات نہیں ہوں گے۔‘
اسرائیلی حکام نے فوری طور پرمحمود عباس کے بیان پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کی سکیورٹی فورسز مقبوضہ مغربی کنارے میں طویل عرصے سے ایک دوسرے سے تعاون کر رہی تھیں۔
فلسطینی اتھارٹی نے امریکی سی آئی اے کے ساتھ انٹیلیجنس کے شعبے میں بھی تعاون کے معاہدے کر رکھے ہیں، جو اس وقت بھی برقرار رہے جب فلسطینیوں نے 2017 میں ٹرمپ انتظامیہ کی امن کوششوں کے بائیکاٹ کا آغاز کیا تھا۔
محمود عباس نے یہ بھی کہا کہ انھوں نے امن معاہدے کے بارے میں صدر ٹرمپ کے ساتھ ٹیلی فون پر بات کرنے حتیٰ کہ پڑھنے کے لیے منصوبے کی کاپی وصول کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
فلسطینی صدر نے کہا کہ ٹرمپ نے ان سے ٹیلی فون پر رابطے کی خواہش ظاہر کی لیکن میں نے جواب دیا کہ نہیں۔ ’ٹرمپ مجھے ایک خط بھیجنا چاہتے ہیں لیکن میں نے اسے وصول کرنے سے انکار کر دیا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ صدر ٹرمپ کو یہ کہنے کا موقع ملے کہ امن منصوبے پر محمود عباس سے مشورہ کیا گیا تھا۔
انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ وہ ٹرمپ کا امن منصوبہ مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔ ’میں نہیں چاہتا کہ تاریخ میں لکھا جائے کہ میں نے مقبوضہ بیت المقدس فروخت کر دیا۔‘