سپریم کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو پشاور میں زیرتعمیر بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) منصوبے کی تحقیقات کرنے سے روک دیا ہے۔
بی آر ٹی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کا منصوبہ ہے جو اکتوبر 2017 سے زیر تعمیر ہے۔
جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پیر کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے خیبرپختونخوا حکومت کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔
اس سے قبل پشاور ہائی کورٹ نے گذشتہ سال نومبر میں ایف آئی اے کو بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کا حکم دیا تھا جس کے خلاف خیبرپختونخوا حکومت نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔
خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے عدالت میں کہا کہ پشاور ہائی کورٹ نے بغیر وجوہات کے فیصلہ جاری کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے وہ فیصلہ دیا جس کی درخواست گزار نے استدعا ہی نہیں کی تھی۔
درخواست کی سماعت کے دوران جہاں ایف آئی اے کو تحقیقات سے روکا گیا ہے، وہیں عدالت نے حکومت سے بی آر ٹی منصوبے کی اصل لاگت اور مکمل ہونے کی تاریخ کے حوالے سے تفصیلات جمع کرانے کا کہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے استفسار کیا: ’تفصیلات بتائیں کہ منصوبے کی اصل لاگت کیا تھی، منصوبہ کب شروع ہوا اور کب مکمل ہونا تھا۔‘
اس پر خیبرپختونخوا حکومت نے بی آر ٹی منصوبے کی تکمیل کی نئی تاریخ دے دی۔
خیبر پختونخوا حکومت کے وکیل نے کہا کہ بی آر ٹی منصوبہ 31 جولائی 2020 تک مکمل ہوجائے گا۔
سماعت کے دوران جسٹس مظہر عالم نے حکومتی وکیل سے کہا کہ منصوبے کی فیزیبلٹی رپورٹ پیش کی جائے۔ ’تفصیل سے بتائیں کہ اب تک منصوبے کی کتنی لاگت بڑھ چکی ہے۔‘
جس پر وکیل پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) نے کہا کہ ’ہم یہ تمام تفصیلات فراہم کرچکے ہیں۔‘
جسٹس مظہر عالم نے استفسار کیا کہ ’منصوبہ 2017 میں شروع ہوا اور تکمیل کی مدت چھ ماہ تھی تو اب تک کیوں مکمل نہیں ہوا؟
واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے وزیر بلدیات کامران خان بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا تھا کہ ’پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ (بی آر ٹی) کی لاگت میں اضافہ معیار اور اضافی سہولیات شامل کرنے سے بڑھا ہے نہ کہ منصوبے کی تکمیل میں تاخیر سے۔‘
کامران بنگش کا منصوبے کے دفاع میں کہنا تھا کہ عموماً ایسے پراجیکٹس پر جب کام شروع کیا جائے اور اس کا سکوپ بڑھانا ہو جیسا کہ بی آرٹی کوریڈور میں تین کلومیٹر کا اضافہ کیا گیا اور اس میں مزید سہولیات کو شامل کیا گیا ہے تو اس کی لاگت 44 سے بڑھ کر 67 ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔