اتوار کی شام کراچی کے علاقے صدر میں واقع جہانگیر پارک سے ایک ڈیڑھ سالہ بچے کو اغوا کرلیا گیا۔ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک برقع پوش خاتون کو ایک لڑکے اور بوڑھے شخص کے ساتھ بچے کو ساتھ لے جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
اغوا کا مقدمہ بچے کے والد کی مدعیت میں پریڈی تھانے میں درج کیا گیا ہے۔
پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی کیمرے انتہائی کم کوالٹی کے ہیں، اس لیے واضح طور پر اغواکاروں کا چہرہ نہیں دیکھا جاسکا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے مغوی بچے سُدیس کے والد عامر منصور نے بتایا: ’ہم کراچی کے علاقے رنچھوڑ لائن کے رہائشی ہیں۔ چھٹی کا دن تھا، لہذا میں نے اور اہلیہ نے سوچا کہ ہم بچوں کو سیر کے لیے پارک لے جائیں۔ تقریباً سات بجے کے قریب ہم جہانگیر پارک پہنچے۔ اس کے بعد جو ہوا ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہوگا۔‘
عامر منصور تین بچوں کے والد ہیں اور ایک موبائل شاپ چلاتے ہیں۔ سُدیس ان کا سب سے چھوٹا بیٹا ہے۔
عامر نے مزید بتایا: ’میرے ساتھ میری اہلیہ، ساس اور تینوں بچوں کے علاوہ اہلیہ کی کزن اور ان کے دو بچے بھی تھے۔ پارک میں آنے کے تھوڑی ہی دیر بعد ہمیں احساس ہوا کہ سدیس غائب ہے۔ ہم نے اسے ہر جگہ ڈھونڈا لیکن وہ نہیں ملا۔ پارک کی انتظامیہ نے ہمیں سی سی ٹی فوٹیج دکھائی تو ہمیں معلوم ہو کہ ایک خاتون جن کے ساتھ ایک لڑکا اور سفید بالوں والا آدمی بھی تھا، وہ ہمارے بچے کو اپنے ساتھ لے کر جارہے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پریڈی تھانے کے ایس ایچ او انسپکٹر سجاد کے مطابق: ’بچے کی فیملی شام سات بجے مین گیٹ سے پارک میں داخل ہوئی جس کے تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد والدہ نے دیکھا کہ بچہ غائب ہے۔ فیملی نے پارک کی انتظامیہ سے سی سی ٹی وی فوٹیج دکھانے کی درخواست کی۔‘
انسپکٹر سجاد نے مزید بتایا: ’ہم نے بچے کے والدین کے ساتھ کئی بار سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا جس کے بعد بالآخر رات 11 بجے یہ واضح ہوا کہ ایک فیملی ٹھیک ساڑھے سات بجے بچے کو پارک سے باہر لے کر جارہی ہے۔‘
سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جاسکتا ہے کہ سیاہ برقعے میں ملبوس اور سیاہ چشمہ لگائے ہوئے ایک خاتون بچے کو لے کر پارک سے باہر جارہی ہیں، جن کے ساتھ زرد شرٹ اور جینز میں ملبوس 12 سے 13 سال کا لڑکا اور سیاہ قمیص کے ساتھ سفید شلوار اور سرمئی سوئیٹر پہنے ایک 55 سے 60 سال کی عمر کا ایک آدمی بھی ہے۔
پولیس کے مطابق: ’خاتون بچے کو پارک سے باہر لے کر آئیں اور سڑک پر آکر بچہ اپنے ساتھ موجود شخص کو دے دیا۔ جس کے بعد انہوں نے ایک رکشہ روکا جس نے جانے سے انکار کردیا، اس کے بعد یہ لوگ تھوڑا آگے بڑھے اور کیمرے کی حدود سے باہر نکل گئے۔‘
تحقیقات کے نتیجے میں ایک اور فوٹیج بھی سامنے آئی، جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ اغوا کاروں نے تھوڑے ہی فاصلے پر ٹریفک سگنل کے قریب ایک رکشے والے کو روکا اور وہاں سے آواری ہوٹل کی جانب روانہ ہوگئے، جس کے بعد مشہور روبی جیولرز کے پاس آکر وہ کیمرے کی حدود سے باہر ہوگئے۔‘
جب ایس ایچ او پریڈی تھانے سے یہ معلوم کیا گیا کہ کیا سی سی ٹی وی فوٹیج میں رکشے کا نمبر اور اغواکاروں کے چہرے واضح ہوئے تو ان کا کہنا تھا کہ ’فوٹیج میں نہ رکشے کا نمبر اور نہ ہی کسی کا چہرہ واضح ہوسکا ہے۔ ہم نے رات بھر مختلف بس اڈوں پر تحقیقات کی ہیں۔ امید ہے کہ اغوا کار کراچی میں ہی ہوں گے، کیونکہ شکل و صورت سے وہ کراچی کے رہنے والے یا اردو سپیکنگ ہی لگ رہے تھے۔‘
بچے کے والد کے مطابق ابھی تک انہیں تاوان کے لیے کوئی فون کال موصول نہیں ہوئی ہے۔ دوسری جانب پولیس کو شبہ ہے کہ یہ اغوا برائے تاوان یا کسی جاننے والے کی انتقامی کارروائی بھی ہو سکتی ہے، تاہم اس حوالے سے مزید تحقیقات جاری ہیں۔