سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر نے انکشاف کیا ہے کہ اسے معلوم ہوا ہے کہ ریاستی عناصر کی جانب سے صارفین کے اکاؤنٹس سے جڑے فون نمبرز تک رسائی حاصل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اس بات کا علم اس وقت ہوا جب پیر کو ایک سکیورٹی محقق نے ویب سائٹ کے ’کونٹیکٹس اپ لوڈ‘ فیچر میں نقص ڈھونڈ نکالا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ویب سائٹ کے پرائیویسی سے متعلق بلاگ پر شائع ہونے والے بیان میں ٹوئٹر کا کہنا تھا کہ کمپنی نے ایسی ’درخواستوں کی بہت زیادہ تعداد‘ کی شناخت کی ہے جو اس فیچر کے ذریعے ایران، اسرائیل اور ملائیشیا کے آئی پی ایڈریس سے کی گئی تھیں جبکہ ’ان میں سے کچھ آئی پی ایڈریسز کا تعلق ریاستی حمایت یافتہ عناصر سے بھی ہو سکتا ہے۔‘
کمپنی کی ایک ترجمان نے اس بارے میں بیان جاری کرنے سے انکار کیا ہے کہ کتنے فون نمبر ان کوششوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ترجمان کے مطابق ٹوئٹر ان تمام اکاؤنٹس کی شناخت کرنے سے قاصر ہے جو اس کا نشانہ بنے ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹوئٹر نے ان کوششوں کے ریاستی عناصر سے ممکنہ تعلق کا اندازہ اس طرح لگایا کہ ایران میں موجود افراد نے ملک میں اس ویب سائٹ پر پابندی کے باوجود اس تک رسائی حاصل کر لی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ٹیکنالوجی کے حوالے سے خبریں دینے والی ویب سائٹ ’ٹیک کرنچ‘ نے 24 دسمبر کو رپورٹ کیا تھا کہ سکیورٹی ری سرچر ابراہیم بیلک نے تقریباً ایک کروڑ 70 لاکھ اکاؤنٹس سے جڑے فون نمبرز تک اینڈرائیڈ ایپ میں نقص کی وجہ سے رسائی حاصل کر لی۔ ’ٹیک کرنچ‘ کے مطابق اس نقص کی وجہ سے ایک سینیئر اسرائیلی سیاست دان کے اکاؤنٹ سے جڑے نمبر سے ان کی درست شناخت کرلی گئی۔
یہ فیچر لوگوں کو اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی صارف کے فون نمبر کو استعمال کرتے ہوئے اسے ٹوئٹر پر تلاش کر سکتے ہیں۔ یورپی صارفین کے لیے اس فیچر کو غیر فعال رکھا گیا ہے کیونکہ یورپ میں پرائیویسی قوانین بہت سخت ہیں۔ ترجمان کے مطابق باقی دنیا میں موجود صارفین کے لیے یہ فیچر خود کار طور پر فعال ہو جاتا ہے۔
ٹوئٹر کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اب اس فیچر میں ترمیم کر دی گئی ہے اور اب یہ ایسی درخواستوں کے جواب میں صارفین کے اکاؤنٹس کو تلاش نہیں کر سکتا۔ بیان میں کہا گیا کہ ٹوئٹر نے اس معاملے میں ملوث اکاؤنٹس کو معطل کر دیا ہے۔
کمپنی کی جانب سے اس ڈیٹا لیک کا شکار ہونے والے صارفین کو انفرادی سطح پر کوئی نوٹیفیکیشن نہیں بھیجا جا رہا، تاہم انفارمیشن سکیورٹی ماہرین کے مطابق ایسا کرنا ایک بہتر عمل ہوتا۔