آسکر ایوارڈز کے لیے نامزد کی جانے والی ڈاکومینٹری ’دا کیو‘ کہانی ہے ایک ایسی ڈاکٹر کی جس نے شام میں حکومت مخالف گروہوں والے علاقے میں سرکاری افواج کے محاصرے کے دوران ہزاروں افراد کا علاج کیا۔
اس کہانی کی مرکزی کردار امانی بالور اب منظر عام پر آرہی ہیں، تاہم 32 سالہ ڈاکٹر ابھی تک مرنے اور شدید زخمی ہونے والے بچوں کے صدمے سے باہر نہیں آسکیں۔ وہ پرامید ہیں کہ ان پر بننے والی یہ ڈاکومینٹری عالمی برادری کی توجہ نو سال سے شام میں جاری جنگ کی جانب مبذول کروا سکے گی۔
ڈاکٹر امانی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’میرے لیے یہ ایک فلم نہیں میری زندگی کی حقیقت ہے۔‘
وہ اتوار کو لاس اینجلس میں ہونے والے آسکرز کی تقریب میں شرکت کے لیے ویزہ حاصل کر چکی ہیں۔
ایک سو دو منٹ پر محیط یہ فلم نہ صرف امانی کی اس جدوجہد کو دکھاتی ہے جو وہ زخمی بچوں کو زندہ رکھنے کے لیے کرتی ہیں بلکہ یہ ایسی خاتون کی بھی کہانی ہے جنہیں مشرقی غوطہ میں ایک شامی ہسپتال چلاتے ہوئے بطور عورت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
’دا کیو‘ شامی خانہ جنگی کے بارے میں بنائی جانے والی ان دو فلموں میں شامل ہیں جو آسکرز کی دوڑ میں شامل ہیں۔ دوسری فلم وعد الکتیب کی حلب میں بنی فلم ’فار سما‘ ہے جس نے مئی میں کین فلم فیسٹول میں بہترین ڈاکومینٹری کا ایوارڈ اپنے نام کیا تھا۔
امانی بالور کا کہنا ہے: ’آسکر نامزدگیاں شامی خانہ جنگی کو مزید اجاگر کریں گی اور امید ہے کہ یہ لوگوں کی جانب سے ہماری مدد کرنے کا باعث بنیں۔‘
وہ مشرقی غوطہ کے پانچ سالہ محاصرے کے بعد شامی حکومت کے دوبارہ قبضے میں جانے کے بعد سے ترکی میں رہائش پذیر ہیں۔
حکومت مخالف گروہوں کے اس علاقے کو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے شام کی سرکاری افواج کی بمباری کے دوران ’زمین پر جہنم‘ قرار دیا تھا۔
شام کی جاری خانہ جنگی کے باعث گذشتہ دو ماہ میں سرکاری افواج اور شام کے روسی اتحادیوں کی کارروائی کے باعث شمال مغربی شام سے پانچ لاکھ افراد نقل مکانی کر چکے ہیں۔
یہ اس خانہ جنگی کے دوران نقل مکانی کرنے والے افراد کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لاکھوں شامی شہری جنگ کے باعث نقل مکانی کر چکے ہیں۔ امانی بالور کا کہنا ہے کہ جلا وطنی کے دوران پرسکون رہنا ان کے لیے بہت مشکل ہے۔
امانی کہتی ہیں: ’جب میں گھر پر تھی تو میں لوگوں کی مدد کر سکتی تھی۔ تمام مشکلات، بمباری، بھوک اور دکھوں کے باوجود میں پرسکون تھی۔‘
امانی جو کونسل آف یورپ کی جانب سے اپنی ’غیر معمولی انسانی خدمات‘ پر راول والنبرگ پرائز جیت چکی ہیں ابھی تک ان ہزاروں مریض بچوں کے صدمے سے باہر نہیں آسکیں جن کا وہ علاج کر چکی ہیں۔
وہ کہتی ہیں: ’وہ بچے تھے جو کچھ نہیں سمجھتے تھے۔ وہ ہمیشہ پوچھتے تھے کیا ہو رہا ہے۔ ہم پر بم کیوں پھینکے جا رہے ہیں۔ انہیں یہ سمجھانا بہت مشکل تھا۔‘
ایک گیارہ سالہ بچے عبدالرحٰمن پر بیتنے والی مشکلات نے امانی پر بہت گہرا اثر چھوڑا ہے۔
عبدالرحٰمن سکول میں اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ بیٹھا تھا جب ان کی کلاس پر شیل گرا جس سے اس کے زیادہ تر ساتھی زخمی ہو گئے۔ جب وہ ہوش میں آیا تو اپنی دونوں ٹانگیں کھو چکا تھا۔ اس نے ہوش میں آتے ہی پوچھا ’میری ٹانگیں کہاں ہیں؟ آپ نے میری ٹانگیں کیوں کاٹ دی ہیں؟‘
امانی بتاتی ہیں: ’آپ بچوں کو آنکھوں میں دیکھ کر انہیں نہیں بتا سکتے تھے کہ آپ ان کا علاج کیوں کر رہے ہیں۔‘
ان کا سب سے مشکل دن اگست 2013 میں تھا جب مبینہ طور پر ایک زہریلی گیس کے حملے کے بعد 14 سو 29 لوگ اس سے متاثر ہوئے۔
ہلاک ہونے والوں میں چار سو 26 بچے تھے۔ امریکی اداروں کی جانب سے ان حملوں کا الزام شامی صدر بشارالاسد کی حکومت پر عائد کیا گیا تھا۔
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں: ’دا کیو‘ ہسپتال میں جگہ نہیں تھی، ہر طرف لاشیں موجود تھیں۔ ہم نے لاشوں کو ایک دوسرے کے اوپر رکھ دیا تھا۔‘
شامی ہدایات کار فراس فیاض کی بنائی گئی اس فلم میں خوشی کے لمحات بھی دکھائے گئے ہیں جیسے کہ ایک سالگرہ کی تقریب جہاں آپریشن کے لیے استعمال کیے جانے والے دستانوں کو غباروں کے طور پر سجایا گیا تھا۔
ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارا میڈیکل کا عملہ ایک خاندان میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ہم خوشی کے لمحوں کو تلاش کیا کرتے تھے تاکہ ہم انسانوں جیسا محسوس کر سکیں۔‘
ان تمام مشکلات کے باوجود امانی بالور کو ایک قدامت پسند ماحول میں صنفی تعصب کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
وہ بتاتی ہیں: ’شروع میں وہ کہتے تھے بطور خاتون میں اس قابل نہیں ہوں۔ لیکن تمام تر دباؤ کے باوجود میں نے یہ ثابت کرنا تھا کہ ایک خاتون ہسپتال چلانے کے قابل ہے۔‘