2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد کئی غیر ملکی فوجی مداخلتوں نے اس ملک میں جنگ کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔
یہاں دنیا کی اُن بڑی طاقتوں کا جائزہ پیش کیا جارہا ہے، جنہوں نے اس سلسلے میں اپنا ’کردار‘ ادا کیا۔
ترکی: شام کا ہمسایہ
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق رواں ہفتے بدھ کو ترکی کی جانب سے شام پر کیا گیا حملہ اس ملک میں شورش کے آغاز کے بعد ترکی کا تیسرا حملہ تھا، جس میں کرد ملیشیا کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔
اگست 2016 سے مارچ 2017 تک کیے جانے والے پہلے حملے کا ہدف کرد ملیشیا اور داعش کے جنگجو تھے۔ جس کے دوران ترکی کے حمایت یافتہ شامی باغیوں نے داعش کے زیر قبضہ کئی علاقوں پر اپنا تسلط جما لیا۔ ان علاقوں میں داعش کا گڑھ الباب بھی شامل تھا۔ فوجی مداخلت کی وجہ سے ترکی کو شمالی شام میں کردوں کے زیر قبضہ علاقوں کے درمیان بفر زون کے قیام کا موقع مل گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرا حملہ جنوری سے مارچ 2018 تک جاری رہا جس میں خاص طور پر کرد ملیشیا کو ہدف بنایا گیا اور انہیں عفرین کے علاقے سے نکال دیا گیا۔
ترک حکومت کا کہنا ہے کہ کرد ملیشیا دہشت گرد تنظیم ہے، جس کا تعلق کالعدم کردستان ورکرز پارٹی سے ہے جس نے تین دہائیوں سے ترکی میں شورش برپا کر رکھی ہے۔
تاہم مغربی ملک کئی برس تک کرد ملیشیا کی مدد کرتے آئے ہیں اور داعش کو شکست دینے میں اس ملیشیا کا بنیادی کردار ہے۔
امریکہ:اوبامہ سے ٹرمپ تک
امریکہ کی جانب سے شام میں فوجی مداخلت کا آغاز 2014 میں ہوا جب براک حسین اوباما صدر تھے۔ امریکہ نے عراق اور شام کے بڑے علاقوں پر قبضے کے بعد مداخلت کی۔
امریکہ نے 70 سے زیادہ ملکوں کا اتحاد بنایا جن میں سے کئی نے ستمبر 2014 میں داعش کے ٹھکانوں پر بمباری شروع کر دی۔ اس اتحاد کے بڑے رکن امریکہ نے دو ہزار فوجی تعینات کیے جن میں سے زیادہ تر کا تعلق خصوصی فورسز سے تھا۔ فضائیہ اور بحریہ کو بھی متحرک کر دیا گیا۔
2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک امریکی فوج کے شام سے فوری انخلا کا اعلان کر دیا۔ چند ماہ بعد کہا کہ چار سو امریکی فوجی’مخصوص مدت‘ تک شام میں موجود رہیں گے۔
چھ اکتوبر 2019 کو وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ امریکہ کے خصوصی دستوں کو شام کی سرحد سے واپس بلا لیا جائے گا۔ اس اعلان نے ترکی کے اُس آپریشن کی راہ ہموار کر دی جس کا بڑے عرصے سے خطرہ تھا۔ امریکی اعلان کے صرف تین دن بعد ترکی نے شام میں آپریشن شروع کر دیا۔
روس: شام کا بڑا مددگار
2015 میں روس نے صدر بشارالاسد کی مدد کے لیے شام میں فضائی حملے شروع کیے، جس کے بعد لڑائی میں ایک اہم موڑ آیا اور حکومت کی حامی فورسز نے حیران کن پے در پے فتوحات حاصل کرتے ہوئے قبضے سے نکل جانے والے علاقوں کا دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔
اس مہم کے دوران انسانی جانوں کے ضیاع اور ہولناک تباہی کی توقع کی جا رہی تھی جن میں حلب کے قدیم شہر کے بڑے علاقوں کی بربادی بھی شامل ہے۔
روس نے شام میں دو فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں جن میں حمیم اور جنوب میں طرطوس کی بندرگاہ میں قائم ہوائی اڈے شامل ہیں۔
روسی حکومت کے مطابق 63 ہزار سے زیادہ روسی فوجی شام کی لڑائی میں حصہ لے چکے ہیں۔ اکتوبر 2019 میں وہاں تین ہزار روسی فوجی موجود ہیں۔ طیارے، ہیلی کاپٹر، جنگی بحری جہاز اور آبدوزیں اس کے علاوہ ہیں۔
ایران: صدر بشارالاسد کا اتحادی
لڑائی کے آغاز سے ایران نے شام کو اہم فوجی اور مالی امداد دی ہے۔ ایران نے شام میں اپنی باقاعدہ فوج کی تعیناتی کی تردید کی ہے لیکن کہا ہے کہ پاسدارانِ انقلاب، حکومت نواز فورسز کے مشیر ہیں۔
ایران کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایران،افغانستان اور پاکستان سے ہزاروں رضاکار بھی شام میں موجود ہیں۔
لبنان میں ایران کی اتحادی طاقتور فورس حزب اللہ نے 2013 میں شامی حکومت کی فوجی معاونت کا سرکاری طور پر اعلان کیا تھا تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ حزب اللہ کے جنگجو اس سے بہت پہلے شام میں بھیج دیئے گئے تھے۔
حزب اللہ نے جولائی 2019 میں کہا تھا کہ اس نے شام میں لڑنے والی اپنی فورس میں کمی کر دی ہے۔ ماہرین کے مطابق ان جنگجوؤں کی تعداد پانچ سے آٹھ ہزار کے درمیان ہے۔
اسرائیل:ایران کا بدترین ترین دشمن
اسرائیل اور شام کے درمیان باضابطہ طور پر جنگ جاری ہے اور اس لڑائی میں اسرائیل کے بدترین دشمنوں ایران اور حزب اللہ کے شامل ہونے کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
اسرائیل نے شام کی سرزمین پر سینکڑوں حملے کیے ہیں جن میں اس کے مطابق ایرانی اور حزب اللہ کے اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل ان حملوں کی ذمہ داری کم ہی قبول کرتا ہے۔