یقیناً آپ اہل شہر کے مشاہدے میں آیا ہو گا، اگر نہیں تو ہم خود بتائے دیتے ہیں کہ ہم دیہاتی لاکھ کوشش کریں مگر اپنا پینڈوپن نہیں چُھپا سکتے۔
آپ نے ماں بیٹے کا وہ قصہ تو سنا ہو گا، جو پہلی دفعہ شہر گئے۔ ان کی بس شہرمیں پہنچی تو مغرب کا وقت تھا۔ جا بجا ٹیوب لائٹیں جلنی شروع ہوئیں تو بیٹے نے چِلا کر کہا، ’بے بے ڈنڈے بَل پئے نِیں‘ (ماں ڈنڈے روشن ہو گئے ہیں) یقیناً آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ پرانی باتیں ہیں اوراب تو دیہات میں بھی بڑا انقلاب آ گیا ہے۔ نہیں جناب والا! یہاں انقلاب ایسا ہی آیا ہے، جیسا عمران خان ملک میں لے کر آئے ہیں۔
آپ اہل شہر تو خیر بڑے تعلیم یافتہ، مہذب اورشائستہ مزاج واقع ہوئے ہیں۔ خواتین کا اٹھ کر استقبال کرتے ہیں، ان کی فنکارانہ اورادبی صلاحیتوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، ان کے خیرہ کن فیشن شوز منعقد کراتے ہیں اور ان کے حقوق کے لیے جلوس شلوس بھی نکالتے رہتے ہیں۔ البتہ ہماری سوچ ابھی تک ان بھاگ بھریوں کے برقعے سلوانے سے آگے نہیں گئی۔
جب ہماری شادی ہوئی تو شہرمیں مقیم ہمارے ایک امیر دوست نے اس موقعے کو پرمسرت تصور کرتے ہوئے ہم چھ سات بیلیوں کو اسلام آباد کے فائیو سٹار ہوٹل میں ڈنر پر بلا لیا۔ حسب روایت صرف مرد حضرات ہی کودعوت دی گئی جبکہ ان کی ازواج کو اس تقریب میں ملوث کرنے سے مکمل پرہیز کیا گیا۔ وہاں جانے سے قبل ایک ہنگامی اجلاس میں یار لوگ متفقہ طور پر ایک ہی پیج پر اکٹھے ہو گئے کہ بڑے ہوٹل میں ہم میں سے کوئی بھی کسی وی آئی پی کو دیدے پھاڑ کرنہیں دیکھے گااور نہ ہی کوئی ایسی پینڈووانہ حرکت کرے گا، جس سے ہمارا پینڈو ہونا آشکار ہو جائے۔
ہم لوگ ہوٹل میں داخل ہوئے تو آپ جیسے سلجھے ہوئے کئی خواتین وحضرات لابی میں تشریف فرما تھے۔ ہم ڈرائیور ہوٹلوں کی چارپائیوں پر بیٹھنے والے حسب عادت پنج ستارہ ہوٹل کے پرشکوہ ماحول میں نروس ہو گئے۔ شاید قدرت کو ہمارا امتحان مقصود تھا۔ ہم لابی میں چند قدم ہی چلے تھے کہ فلم سٹار مِیرا ہم پر ’حملہ آور‘ ہو گئیں۔ دراصل وہاں کسی فلم کی شوٹنگ کے سلسلے میں بیڈ روم کا سین فلمایا جا رہا تھا۔ اس دوران میرا کو کسی سے ملنے لابی میں آنا پڑا تو وہ ہوشربا نائٹی کے آتشیں اسلحے سے لیس وہاں آ دھمکیں اور ہمارے قریب سے یوں گزریں کہ فریقین کے مابین سُوئی سلائی کا فرق ہی رہ گیا۔
اس خطرناک سین نے یار لوگوں کی رہی سہی خود اعتمادی بھی ہوا میں اُڑا دی اور ہماری گردنیں کسی خود کار آلے کی طرح میرا کی چال کے ساتھ ساتھ مڑتی چلی گئیں۔ ہمارے دوست باقر وسیم نے بے ساختہ ہم لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے باآواز بلند کہا، ’ہائے اوئے، میرا‘۔۔۔۔ اس نازیبا حرکت پر جہاں خود میرا بھی مسکرا دی، وہاں لابی میں موجود معززین شہر پر بھی یہ حقیقت کھل گئی کہ پہاڑیوں کا کوئی گروہ ہوٹل میں گھس آیا ہے۔
ایک اور آپ بیتی سنیے۔ رات گئے ہم دودوست ملائیشیا کی سٹیٹ پینانگ کے سمندر کنارے تاریخی شہر جارج ٹاؤن میں آوارہ گردی کر رہے تھے۔ ایک ڈسکو کلب کے باہرسے گزرے تو یہ ہلہ گلہ دیکھنے کو ہمارا دل جی بھی للچا گیا۔ ہم نے کلب میں گھسنے کی کوشش کی تو ایک سیکورٹی گارڈ نے ہمیں روک لیا۔ نیک بخت بڑا ہی کرخت مزاج تھا۔ ہماری شلوار قمیص اور کوہاٹی چپل پر حقارت سے ایک نظر ڈال کر کہنے لگا، ’پہلے انسانوں جیسا حلیہ بنا کر آؤ!‘
ہم نے درخواست کی کہ بھائی ہم تیرے برادر اسلامی ملک سے آئے ہیں، کچھ حیا کر۔ ہم غالب کی طرح منتِ درباں کرتے رہے مگر نہ غالب کی چلی تھی، نہ ہماری۔ پس ہم دونوں دوبارہ آن روڈ ہو گئے اور برلب سڑک تماشائے اہل کرم دیکھنے کا سلسلہ وہیں سے شروع ہوگیا، جہاں سے ٹوٹا تھا۔
اپنے جاہلانہ اور آپ کے مہذب رویوں کے درمیان فرق واضح کر نے کے لیے ہم ایک اور مثال دیں گے۔ ایک مرتبہ ہم دو دوستوں کو اپنے ملک کے ایک بڑے شہر کے فائیو سٹار ہوٹل میں نئے سال کے فنکشن میں اتفاقاً جانے کا موقع مل گیا۔ ہم نے ماضی سے سبق حاصل کرتے ہوئے مانگ تانگ کر انگریزی سُوٹ حاصل کیے اور گاؤں سے شہر روانہ ہو گئے۔ بڑی ہی دلربا اور عقل شکن تقریب تھی۔ ظاہر ہے کہ جہاں آپ جیسے اہل ثروت، تہذیب یافتہ، روشن خیال اور کھلے دل و دماغ والے خواتین و حضرات ہوں گے، وہاں کِھلے چہروں اور ہرے، نیلے، پیلے، اودے اور سرخ رنگوں کی بہار تو ہو گی۔ روشن خیالیاں بھی ہوں گی اور نٹ کھٹیاں بھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہیں ہم پر منکشف ہوا کہ ہوٹل میں ہلہ گلہ کرنے والا ڈسکو کلب بھی ہے۔ پس ہم دونوں بھی منہ اٹھائے وہاں چل دیے۔ یہاں بھی ایک دربان نے ہمیں روک لیا اور کہا، ’کلب میں صرف جوڑوں کو جانے کی اجازت ہے، لہٰذا آپ لوگ اپنی اپنی خاتون دوست ہمراہ لائیں۔‘
اب آپ ہی بتائیے کہ ہم چائے میں پیسٹری ڈبو کر کھانے والے کیا جانیں کہ آپ اہل شہر نے ایسے ارفع دروازے وا کرنے کے لیے کیسی کیسی قدغنیں لگا رکھی ہیں؟
ہم نے عرض کیا کہ ’بھلے مانس! ہماری تو اپنے دیہات میں کوئی خاتون دوست نہیں، اس پرائے شہرمیں ہمیں کون منہ لگائے گا؟‘
مگر وہ اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہااور ہم واپس فنکشن والے ہال میں آ گئے۔ ایک میز پر دو نوجوان فیشن ایبل اور وسیع المشرب شہری خواتین تشریف فرما تھیں۔ ہمارا دوست ان کے پاس گیا اور سارا فسانۂ غم کہہ سنایا۔ خدا ان کو لمبی عمر عطا فرمائے، وہ انسانی ہمدردی کی بنا پر بخوشی ہماری جعلی دوست بننے پر تیار ہو گئیں۔ ہم نے ہر دوفراخ دل خواتین کی معیت میں کلب کے دروازے کی سرحد باعزت طریقے سے عبور کی مگر وہ دونوں ہمیں ہماری اوقات کے مطابق اس شرانگیز ماحول کے حوالے کر کے چپکے سے باہر نکل گئیں۔ تاہم ہم نے ان مہرباں خواتین کے کرمِ شاہانہ کے طفیل تادیر الہڑ جوانیوں اور جذبات کی جولانیوں کا ہونقوں کی طرح تماشا دیکھا۔
اب آپ ذرا ہمارے ہاں کا حال سنیے۔ آپ کسی بھی گاؤں میں جا کر کسی راہ چلتی خاتوں سے کسی کے گھرکا پتہ پوچھ کر بتائیں۔ جواب میں وہ تڑاخ سے جواب دے گی، ’بے شرم، تمہارے گھر ماں بہن نہیں ہے کیا؟‘
بڑا فرق ہے جناب آپ کے اور ہمارے ماحول میں۔ ’تُسیں سخی تے سیانڑیں، اسیں کملے تے جھلے۔۔۔۔۔ تہاڈے ویہڑے روشنیاں، ساڈا دیوا وی نہ بلے!‘
جتنی لوڈشیڈنگ ہمارے ہاں ہوتی ہے، اس کا عشر عشیر بھی آپ کے مقدر میں نہیں۔ آپ کے لیے اربوں ڈالروں سے میٹرو بسوں اور اورنج ٹرینوں جیسے منصوبے بنتے ہیں، جبکہ ہماری گھٹیا میٹریل سے بنی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ جائیں تو انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں۔
آپ بڑے بڑے افسروں سے بھی خود اعتمادی سے بات کرتے ہیں جبکہ ہمیں دور چلتا پولیس کا سپاہی بھی نظر آ جائے تو دونوں ہاتھ ماتھے پر رکھ کر اور اپنی کمر کو خم دیتے ہوئے ادب سے کہتے ہیں، ’صاحب سلام!‘