صحافیوں کی تنظیم کی جانب سے بلاگر گورایہ کی حفاظت کا مطالبہ

میڈیا کی آزادی کے لیے فرانس میں قائم تنظیم آر ایس ایف نے ایک بیان میں نیدرلینڈ کی حکومت سے وقاص گورایہ پر مبینہ تشدد کے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے شبہ ظاہر کیا ہے کہ اس میں پاکستانی ریاستی عناصر ملوث ہو سکتے ہیں۔

احمد وقاص گورایہ پاکستانی فوج پر تنقید کے لیے مشہور ہیں (آر ایس ایف)

ایک بین الاقوامی تنظیم رپورٹرز ودآوٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے نیدرلینڈ کے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستانی بلاگر احمد وقاص گورایہ کو تحفظ فراہم کرے جن پر ان کے روٹرڈیم میں ان کے گھر کے قریب حملہ کیا گیا اور ڈرایا دھمکایا گیا۔ وقاص گورایہ وہاں اپنے خاندان کے ساتھ خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

میڈیا کی آزادی کے لیے کام کرنے والی فرانس میں قائم تنظیم آر ایس ایف نے ایک بیان میں نیدرلینڈ کی حکومت سے اس واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے شک کا اظہار کیا ہے کہ اس میں پاکستانی ریاستی عناصر ملوث ہو سکتے ہیں۔

بیان کے مطابق گورایہ پر دو فروری 2020 کو دو افراد نے حملہ کیا۔ گورایہ اپنے سوشل میڈیا پر سخت بیانات کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ انہوں نے آر ایس ایف کو بتایا کہ ’میں فون پر بات کر رہا تھا جب ایک شخص آیا اور مجھے چہرے پر گھونسے مارنے لگا جبکہ ایک دوسرا شخص اس کی ویڈیو بنا رہا تھا۔‘

ان کے مطابق یہ افراد پشتو لہجے میں اردو بول رہے تھے اور انہوں نے گورایہ کو جان سے مارنے کی دھمکی دینے کے علاوہ کہا کہ انہیں معلوم ہے کہ وہ اور ان کا خاندان کہاں رہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گورایہ نے روٹرڈیم ضلع میں مارکوناپلین کے قریب پولیس سٹیشن میں اس واقعے کی شکایت درج کروائی ہے۔ انہوں نے آر ایس ایف کو بتایا کہ ’اس حملے کا طریقہ کار خفیہ اداروں سے ملتا ہے۔ مجھے علم ہے کہ پاکستان مخالف رائے رکھنے والوں کی ایک فہرست بنی ہوئی ہے۔‘

آر ایس ایف کا کہنا ہے کہ یورپ میں پناہ لینے والے کم از کم دو پاکستانی صحافیوں کے رشتہ داروں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ گورایہ نے بھی 2018 میں کہا تھا کہ ان کے پاکستان میں رشتہ داروں کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔

جنوری 2017 میں جب گورایہ پاکستان میں تھے تو انہیں اغوا کر لیا گیا تھا۔ کئی ہفتوں کے بعد انہیں رہا کیا گیا جس کے بعد وہ نیدرلینڈ منتقل ہو گئے۔ وہاں انہوں نے بتایا تھا کہ انہیں یرغمال بنائے جانے کے بعد ان پر تشدد کیا گیا تھا۔

مارچ 2019 میں وہ ان چھ پاکستانی صحافیوں میں سے ایک تھے جن پر وفاقی تحقیقاتی ادارے نے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ان کی تصویریں سعودی شہزادے محمد بن سلمان کے دورے کے دوران پوسٹ کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ ایف آئی اے نے ان صحافیوں کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔     

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست