ٹیکسی ڈرائیور بھی طبیعت کا وزیرِ اعظم نکلا

میں نے کرایہ دیا اور یوں یہ سفر ’رحونیت،‘ الٰہیات، یکجہتیِ کشمیر، لسانیات، کرونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر، رحمتِ خداوندی اور اخلاقیات سے ہوتا ہوا مطالعہ پاکستان پر ختم ہوا۔ حق سلامت رکھے، ٹیکسی والا طبعیت کا وزیر اعظم تھا مگر قسمت کا مارا ہوا تھا۔‘

آج میں نے ایک پرائیویٹ کمپنی کی ٹیکسی بُک کروائی تو ایک برگزیدہ ڈرائیور صاحب میری قسمت میں آئے۔ چوڑا کُرتا، پھولدار ٹوپی، کتری ہوئی مونچھیں، بڑھی ہوئی داڑھی، ماتھے پر نشان اور عود و عنبر کے بھپکے۔ میں بیٹھا تو سر سے پاؤں تک ایک نگاہ میں پورا الٹرا ساؤنڈ لے لیا۔

بولے، ’ماشا اللہ پابندِ صوم و صلوٰۃ لگتے ہو؟‘

سنتے ہی میرے دماغ میں چار چراغ بھک سے روشن ہو گئے۔ کچھ ایسی ہڈی حلق میں پھنس گئی کہ اگلی جائے نہ نگلی جائے۔ آخری نماز میں نے عید الاضحیٰ کی پڑھی تھی اور وہ بھی ہنزہ بالا کے علاقے گُلمت میں آغا خانیوں کی عید گاہ میں۔ یعنی ایک نماز پڑھی وہ بھی ایسی جو جمہور علمائے کرام کے ہاں نماز ہی نہ تھی۔ عباس تابش کا مصرع ہے، ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت۔ ہمارے ہاں اس طرح کی نامراد نمازیں علامہ اقبال والے شعر کے زمرے میں آتی ہیں۔۔۔

جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

ڈرائیور کے سوالیہ تبصرے کا جواب ہاں کی صورت میں دوں تو یہ سال 2020 کا سب سے بڑا جھوٹ ہو گا۔ اگر نہ کہوں تو اس شخص کے ساتھ رفاقت یہیں ختم ہوجائے گی۔ سال کے بالکل آغاز پر ہی جھوٹ کا سب سے بلند مینار تعمیر کروں تو باقی سال بہت بے رنگ اور بورِنگ گزرنے کا خدشہ ہے۔ رفاقت ختم ہوگئی تو کارِ جہاں اور بھی دراز ہوجائے گا۔ دونوں نقصانات سے بچنے کے لیے میں نے بیچ کی راہ لیتے ہوئے کہا، بس جی یہ تو آپ کا حُسنِ نظر ہے ورنہ کتھے مہر علی کتھے تیری ثںا۔ یہ سن کر ڈرائیور جھوم اٹھا اور لہک چہک کے بولا، گستاخ اکھیاں کتھے جا لڑیاں۔ یوں میری پہلی آزمائش پیر مہر علی شاہ کے شعر میں گُھل مل کے کہیں گم ہو گئی۔

سفر کچھ آگے بڑھا تو سیل فون نکال کے میں ایک دوست کو پیغام لکھنے لگا۔ ڈرائیور نے میری لکھنے کی رفتار کو سراہتے ہوئے اردو زبان کے حال اور مستقبل پر ایک لیکچر دینا شروع کر دیا۔ اردو کی پہلی فضیلت انہوں نے یہ بتائی کہ اس میں عربی کے اچھے خاصے الفاظ موجود ہیں اور عربی وہ زبان ہے جس میں قرآن مجید نازل ہوا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے ان نقادوں پر سخت نقد کیا جو سمجھتے ہیں کہ اردو کی زندگی بہت کم رہ گئی ہے۔ دو ٹوک الفاظ میں انہوں نے کہا، ’جس طرح قرآن مجید قیامت کی صبح تک محفوظ رہے گا اسی طرح اردو زبان بھی محفوظ رہے گی یہ آپ لکھ کے رکھ لیں۔‘

میں نے اپنی کم مائیگی کی وجہ سے اِس علمی بحث میں حصہ لینے سے مکمل گریز کرتے ہوئے صرف اتنا کہا، ’آپ نے میرا حوصلہ بڑھا دیا ہے ورنہ کہنے والے تو یہ تک کہہ رہے تھے کہ اردو کی زندگی یہی کوئی چالیس پچاس برس ہی رہ گئی ہے!‘

 یہ سنتے ہی پورے گھن گرج سے بولے، ’او ناں جی ناں اِن بدبختوں کا عقیدہ کمزور ہے ورنہ یہ کبھی ایسی بات کہنے کی جرات نہ کرتے۔ دیکھیں نا کلام پاک کا ایک حرف آج تک آگے پیچھے ہوا؟ خدا جب کعبہ بچانے پہ آئے تو پھر کیسے ابابیل سے کام لیتا ہے۔ اردو پر قرآن کا سایہ ہے یہ اس پر کوئی زوال نہیں آئے گا میرے رب کے حکم سے۔‘

 میں نے پوری دریا دلی کے ساتھ اعتراف کیا کہ ’میرے محدود ترین علم کے مطابق زبانِ اردو کا اِس تناظر میں کسی نے جائزہ نہیں لیا۔ پھر جس پہلو سے آپ آئے ہیں یہ تو اٹل پہلو ہے جس پر نقد کرنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔‘

بات ختم ہوئی تو میں پھر سے پیغام لکھنے میں مگن ہو گیا۔ دو چار لفظ ہی ابھی جوڑے ہوں گے کہ ڈرائیور نے پوچھا، ’آپ کے فون میں ترجمے والا قرآن موجود ہے؟‘

اس سوال نے پھر سے آتشِ عشق جیسی آزمائش کھڑی کردی۔ جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے۔ یہاں مجھے سمجھ آگیا کہ آج اس ڈرائیور نے اتنی گاڑی نہیں گھمانی جتنی مجھے باتیں گھمانی ہوں گی۔ شکر خدا کا یہ تھا کہ غیب سے مضامین خیال میں برابر چلے آرہے تھے۔ میں نے کہا، ’آپ کے موبائل میں ہے قرآن؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’جی الحمدللہ، میرے موبائل میں تو دو تین طرح کی تفاسیر موجود ہیں۔ پھر آج کل کرونا وائرس کی خبریں بھی ہیں۔ لوگ طرح طرح کی دواؤں کے لیے خجل خوار ہو رہے ہیں میں الحمدللہ دو رائیڈوں کے بیچ دس بیس بار سورہ یٰسین پڑھ ہی لیتا ہوں۔ اسی کے صدقے خدا نے بچا کے رکھا ہوا ہے ورنہ کرونا تو آپ کو پتا ہے گھر گھر پہنچ چکا ہے۔‘

میں نے کہا، ’لیکن آپ کو نہیں لگتا کہ موبائل میں قرآن مجید رکھنا تھوڑی سی بے ادبی ہے؟‘

’وہ کیوں جی، بے ادبی کیسی؟‘

’دیکھیے آپ کے موبائل میں طرح طرح کی تصویریں بھی ہوں گی، طرح طرح کے غیر محتاط سے میسجز بھی ہوں گے، پھر موبائل آپ کبھی یہاں کبھی وہاں رکھتے بھی ہوں گے، تو کیا یہ قرآن مجید کی بے ادبی نہیں ہے؟‘

جس طرح مجھ پر زبانِ اردو والے نکات کھلے تھے، ڈرائیور پر میری بات بھی اثر کر گئی۔ جس نے بھی کہا ہے سچ ہی کہا ہے، بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ ڈرائیور نے کچھ دیر سوچنے کے بعد میری بات سے مکمل اتفاق کیا کہ بات آپ کی سو فیصد درست ہے۔ یہ وعدہ بھی کیا کہ میں اس پر اپنے عالمِ دین رشتے دار سے رائے بھی لوں گا۔ ’ٹھیک ہے آپ کی بات درست لگ رہی ہے لیکن ظاہر ہے آپ عالمِ دین تو نہیں ہیں نا۔ اسی لیے مجھے عالمِ دین رشتے دار سے ذرا پوچھنا ہوگا کہ وہ کیا کہتے ہیں۔‘

اس معاملے پر بھی جب ہم ایک نتیجے پر پہنچ گئے تو میں دوست کو پھر سے پیغام لکھنے لگا۔ لیکن میں بھول گیا کہ میں اس کمبخت مارے کو کہنا کیا چاہتا تھا۔

کچھ دیر پیغام سوچتا رہا، یاد نہیں آیا۔ اس دوران میں نے دماغ پر کچھ زور دیا تو ڈرائیور بولا، ’لگتا ہے کوئی بات بھول گئے ہیں آپ۔ ابھی میں نے ہاں یا نہ میں جواب بھی نہیں دیا تھا کہ بولے، ’درود شریف پڑھیں ابھی یاد آجائے گا۔‘

ابھی دکھاوے کا درود بھی نہیں پڑھا تھا کہ پیغام یاد آگیا۔ لکھنے لگا تو صاحب بولے، ’یہ ہوتا ہے پوری نیت سے درود شریف پڑھنے کا کمال۔ آپ درود نہ پڑھتے تو ابھی بیٹھے رہتے سر پکڑ کے۔‘ بالآخر میں پورا میسج لکھنے میں کامیاب ہوا، ’یار بھائی وہ وزیر اعلیٰ کے پی کے تقریر کی پوری ویڈیو تو بھیج دے ذرا۔‘

تقریر سننے کے لیے ویڈیو پر کلک کرنے ہی والا تھا کہ ڈرائیور نے کسی جید عالمِ دین کی تقریر لگا دی۔ عالمِ دین کے گلے کی گراریاں بہت ہی کوئی مغلق  قسم کی تھیں۔ ڈرائیورنے کہا، ’آپ کو زحمت ہو رہی ہو تو میں تقریر بند کردیتا ہوں مگر مجھے پورا یقین ہے کہ آپ کو اعتراض ہو گا نہیں۔‘

ڈرائیور نے مجھ سے ہمدردی کا اظہار بھی کر دیا اور میرا اختیار بھی خود سے استعمال کر لیا۔ غالب کی زبان میں اسے کہتے ہیں، دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی۔ تقریر میں مولانا صاحب فرما رہے تھے، ’یہ تبلیغی جماعت والے آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ دیکھتے ہیں کسی بھی ایرے غیرے کو مسجد لا کر نماز پڑھوا دیتے ہیں۔ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ بندہ مشرک ہے، گمراہ ہے، زندیق ہے یا کیا ہے بس منہ اٹھاکے لے آتے ہیں۔ بھئی کیا فائدہ؟ اوپر اللہ مشرک کی نماز قبول نہیں کر رہا اور نیچے تم مشرک سے نمازیں پڑھوا رہے ہو؟‘

مولانا صاحب کی تقریر سن کر میں نے شکر بھیجا کہ اچھا ہی ہوا میں نے یہ نہیں بتایا کہ آخری نماز عید پر ہی پڑھی تھی وہ بھی اسماعیلیوں کے پیچھے۔ یہ سن کر کوچوان کے دلِ پرنور پر جو گزرنی تھی اس کے بیان کے لیے تو کم از کم بھی فیض احمد فیض کا زورِ بیاں درکار ہوتا۔  

میں نے مولانا صاحب کی تقریر جاری رہنے دی اور وزیر اعلیٰ کے پی کی تقریر سننے کے لیے موبائل کان پہ لگا لیا۔ یہ تقریر یومِ یکجہتیِ کشمیر کے حوالے سے تھی جس میں وہ انکشاف کر رہے تھے کہ ’انسان میں سانس نہیں رہے تو وہ زندہ نہیں رہتا۔‘ میں نے کان پر موبائل لگایا ہی تھا کہ ڈرائیور نے کہا، ’اللہ تعالی کشمیریوں کے حال پر رحم فرمائے۔ یہ صاحب کون ہیں؟ ظاہر ہے کوئی پاکستانی ہی ہو گا۔‘

ابھی سوال جواب کا سلسلہ جاری تھا کہ تقریر ختم ہو گئی۔ ڈرائیور بولے، ’سکرین پر آپ کا ہاتھ لگ گیا شاید، اسی لیے بند ہو گیا۔ یہ نئے فونوں کا یہی مسئلہ ہے۔ ہلکا سا ہاتھ لگا نہیں اور فون بند ہوا نہیں۔ جو بھی ہے ہمارے ہاں فون تو چل رہے ہیں۔ کشمیریوں کو تو فون کی سہولت بھی حاصل نہیں ہے۔ ہمیں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کرنی چاہیے۔ کچھ نہیں پتہ وہ کب اپنی نعمتیں ہم سے چھین لے۔‘

میں دفتر سے یہ سوچ کے نکلا تھا کہ ٹیکسی والے سے گزارش کروں گا کہ رائیڈ اینڈ کرنے کی بجائے مجھے واپس بھی لے آئے۔ جس روحانی تشدد کا مجھے سامنا کرنا پڑا  میں نے فیصلہ واپس لینے میں ہی خیر جانی۔ مگر وہ ستارہ ہی کیا جو گردش میں آجائے اور پھر آرام سے بیٹھ جائے۔ ڈرائیور بولا، ’جہاں آپ جارہے ہیں وہاں رائیڈ نہیں ملتی۔ بہتر ہو گا کہ میں آپ کا انتظار کر لوں، آپ کو واپس بھی لیتا آؤں گا۔‘

میرے گلے میں پھانس لگ گئی، فوراً شکریہ کے ساتھ آفر ٹھکرائی مگر انہوں نے کہا، ’آپ یقین مانیے اس میں ہم دونوں کا فائدہ ہے۔‘

میں نے کچھ بہانے تراشے مگر سب بے سود و بے کار گئے۔ انجامِ کار میں نے ہتھیار ڈال دیے۔ میں اتر کر بینک میں داخل ہوا، سیدھا کاؤنٹر پر جاکر کچھ کاغذات داخلِ دفتر کیے، مجھے انتظار کرنے کو کہا گیا۔ میں انتظار گاہ میں آیا تو ڈرائیور بزرگوار انتظار گاہ میں مجھ سے پہلے ہی موجود تھے۔ مجھے دیکھ کر بولے، سوچا اندر ہی بیٹھ جاؤں، آرام بھی ہو جائے گا قرآن بھی ڈیلیٹ ہو جائے گا۔ میں نے حیرت سے پوچھا، ’قرآن ڈیلیٹ ہو جائے گا مطلب؟‘

’ارے آپ نے ہی تو کہا تھا کہ قرآن کی بے ادبی ہے تو میں نے ڈیلیٹ کر دیا۔‘

میں نے نہایت فکرمندی سے کہا، ’لیکن اب کرونا سے بچاؤ کے لیے 40 بار سورہ یٰسین کیسے پڑھیں گے آپ؟‘ اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتے، کاؤنٹر سے بلاوا آگیا۔

واپس آ کر ڈرائیور سے چلنے کو کہا۔ گاڑی میں بیٹھتے بیٹھتے کہنے لگے، ’کرونا والی آپ نے خوب کہی، میں نے اپنی ضرورت کے لیے سورہ یٰسین واپس ڈاؤن لوڈ کر لی ہے۔ لیکن سورہ یٰسین کی بے ادبی نہیں ہو گی کیا؟‘

’ارے سر جی جان پہ بنی ہو تو سُور کا گوشت بھی حلال ہو جاتا ہے۔ اس پر بھی خدا درگزر کرے گا مجھے پتہ ہے۔ آپ کو کیسے پتہ؟ بس جی آپ کو اسلام کی روح سمجھ آنی چاہیے باقی معاملات خود ہی آسان ہوتے چلے جاتے ہیں۔‘

گاڑی سگنل پر رکی تو ڈرائیور موبائل میں مشغول ہو گئے۔ سگنل کھلا تو کہنے لگے، ’یہ لو جی میں نے سورہ یٰسین بھی ڈیلیٹ کر دی۔‘

’ارے کیوں، مشکل وقت میں تو سُور کا گوشت بھی حلال ہو جاتا ہے؟ سر جی بس اللہ نے ایک بڑی ہی مزے کی بات میرے دل میں ڈال دی۔ دل میں آیا کہ کیا پتہ بے ادبی سے بچنے کے لیے سورہ یسین ڈیلیٹ کرنے والی یہ ادا اللہ کو اتنی پسند آ جائے کہ مجھے کرونا وائرس سے ہمیشہ کے لیے بچا لے۔

منزل پر واپس پہنچے تو پیسے لیتے ہوئے قائد کی تصویر پر نظر پڑگئی۔ بات جاری رکھتے ہوئے بولے، اب جیسے قائد اعظم کو دیکھ لیں آپ۔ جس طرح اللہ عز وجل کلین شیو ہونے کے باوجود انہیں جنت میں بغیر حساب کتاب کے داخل کریں گے، مجھے بھی سورہ یٰسین ڈیلیٹ کرنے کی وجہ سے کرونا سے بچا لیں گے۔ کیونکہ اس کے پیچھے نیت جو میری اچھی ہے۔ ترنت میں نے کہا، ’تو کلین شیو کرانے کے پیچھے بابائے قوم کی کوئی اچھی نیت تھی کیا؟‘

’جی تھی بالکل تھی۔‘

’وہ کیسے؟‘

’وہ جی دیکھیں نا، انگریز کا روپ دھار کر انگریزوں کی صفوں میں گھسے اور ان کے چنگل سے پاکستان نکال کے لا کر ہمیں دے دیا!‘

کرایہ لیتے ہوئے کہا، ’دائیں ہاتھ سے دیجیے تاکہ پیسوں میں ذرا برکت پڑ جائے۔‘

میں نے کرایہ دیا اور یوں یہ سفر ’رحونیت،‘ الٰہیات، یکجہتیِ کشمیر، لسانیات، کرونا وائرس سے بچاؤ کی تدابیر، رحمتِ خداوندی اور اخلاقیات سے ہوتا ہوا مطالعہ پاکستان پر ختم ہوا۔ حق سلامت رکھے، ٹیکسی والا طبعیت کا وزیر اعظم تھا مگر قسمت کا مارا ہوا تھا۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ