11 سالہ نمیر اپنے زرد رنگ کے سکول بیگ اور یونیفارم کے ساتھ ایک مخصوص پاکستانی طالب علم کی طرح لگ رہے ہیں۔ وہ بہت پر کشش ہیں، زندہ دل ہیں اور ویڈیو گیمز کے ساتھ لگاؤ رکھتے ہیں۔ لیکن یہ چھوٹا بچہ دماغی اور جسمانی معذوری کا بھی شکار ہے۔ اس وقت سے جب اس کو بچپن میں گردن توڑ بخار سے بچاؤ کے سلسلے میں غلط انجکشن لگا دیا گیا تھا۔
پاکستان میں معذوری کو کافی حد تک ذلت اور رسوائی کے زمرے میں لیا جاتا ہے۔ جہاں 96 فیصد خصوصی بچے سکولوں سے باہر ہیں اور ایسے ہر 30 ہزار طالب علموں کے لیے صرف ایک معالج دستیاب ہے۔ عام لوگوں میں گھل مل کر رہنے کی بجائے یہ نوجوان اکثر تنہائی کا شکار رہتے ہیں جس سے ان کی حالت مزید خراب ہو جاتی ہے۔
محمد عثمان کے بڑے بھائی کو ڈاون سنڈروم (جسمانی اور دماغ کی بیماری) ہے، موزوں علاج نہ ہونے کی وجہ سے جب وہ انتہائی مایوس ہو چکے تھے، تب اُن کو ’ونڈر ٹری‘ کا پتہ چلاـ ونڈر ٹری ایک ایسا سٹارٹ اپ ہے، جو 2015 سے سیکھنے کی کم صلاحیت رکھنے والے بچوں کو کمپیوٹر گیمز سکھاتی ہے۔
ونڈر ٹری کے بانی محمد عثمان کہتے ہیں: ’میں نے دیکھا ایک دن میرا بھائی میرے کنسول (کمپیوٹر گیم کھیلنے والے آلے) پر گیم کھیل رہا تھا اور بہت اچھا کھیل رہا تھا۔ تب میں نے سوچا کہ اگر ایسا ہے تو کچھ نیا کیوں نہ کیا جائے؟‘
پھر بہت جلد ان کے دوست اور گیم کے ساتھی محمد وقاص نے بھی ان کا ساتھ دیا جواپنے شراکتی کمپنی کو بند کرکے ونڈر ٹری کا حصہ بن گئے۔ کراچی میں قائم ہونے والی یہ ٹیکنالوجیکل سٹارٹ اپ کمپنی اب ایک مصصم ارادے کے ساتھ معاشرے کی خدمت کرنا چاہتی ہے تاکہ آگمنٹڈ ریئلٹی (ایک کمپیوٹر گیم) اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس (مصنوعی ذہانت) گیمز کے ذریعے خصوصی بچوں کی مدد کرسکے۔
خصوصی تعلیم اور سائیکالوجسٹس کی مدد سے ونڈر ٹری اب تک 17 ایسے بہترین گیمز ترتیب دے چکی ہے جو دوسری دماغی بیماریوں کے ساتھ ساتھ ان بچوں کے لیے انتہائی مفید ہیں جو آٹزم، ڈاؤن سنڈروم اور سیربرل پالسی (دماغی فالج) کا شکار ہوں جبکہ پانچ مزید گیمز اس سال کے آخر تک تیار ہوں گے۔
اس حوالے سے وقاص کا کہنا ہے: ’عام طور پر خصوصی بچے جیت کے جذبے کے عادی نہیں ہوتے اور نہ کسی جاری کام کو اپنے دائرہ اختیار میں لا سکتے ہیں، لیکن یہ گیمز ان بچوں کو متحرک کرتے ہیں کہ یہ گیم بار بار کھیلیں۔ حقیقت میں جیسے جیسے یہ کھیلتے ہیں، ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ونڈر ٹری ٹیکنالوجی کا شکریہ کہ وہ بچے جو سیکھنے یا موٹر معذوری (دماغ کے اندر موجود وہ خودکار نظام جو جسم کو حرکت دینے سے پہلے سگنلز بھیجنے کا کام کرتا ہے) کا شکار ہیں، اس کی بدولت یہ بچے اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنی موٹر سکلز کے ساتھ ساتھ اپنے علمی اور انسانی طرزِ عمل میں بھی بہتری لائیں۔
یہ سافٹ ویئر اساتذہ کی بھی مدد کرتا ہے تاکہ ایک مربوط رپورٹنگ سسٹم کے ساتھ بچوں کی کارکردگی کو دستاویزی صورت میں محفوظ رکھیں۔ وقاص کہتے ہیں کہ ’ہم خصوصی بچوں کے سکول بنا سکتے ہیں یا پھر معالج کی تعداد بڑھا سکتے ہیں لیکن جو ہم نے کرنا ہے وہ یہ کہ ہم اس ٹیکنالوجی کی مدد سے علاج کو قابلِ رسائی، سستا اور کارآمد بنائیں۔‘
وقاص کا مزید کہنا تھا کہ سال کے آخر تک یہ گیمز 25 شہروں کے اندر 100 سکولوں اور 40 ہسپتالوں میں انسٹال ہو جائیں گے، جن کو 40 ہزار بچے استعمال کرسکیں گے۔
باقی ملکوں نے بھی اس بارے میں توجہ دی ہے اور آئندہ سال تک ونڈر ٹری کا دائرہ کار قطر، متحدہ عرب امارات اور یورپ تک پھیل جائے گا۔
عثمان کہتے ہیں کہ ’جب میں خصوصی بچوں میں سے کسی ایک کی کامیابی کی کہانی سنتا ہوں تو مجھے لگتا ہے جیسے میرے اپنے معذور بھائی نے کچھ حاصل کیا ہو اور یہ مجھے متحرک کر دیتا ہے کہ میں اِن بچوں کے لیے مزید کچھ کروں۔‘
اُن کا کہنا ہے کہ ونڈر ٹری کا طویل المدت عالمی وژن یہ ہے کہ یہ ایک گھریلو نام بن جائے۔ ’جیسا کہ خصوصی بچوں کے والدین کے لیے گوگل کا سیکشن ہے۔‘
وقاص اور عثمان وہ دو پاکستانی ہیں جنہوں نے ملک کے ایک اہم ترقیاتی مسئلے کو چن کر ٹیکنالوجی کا اپنا کاروبار شروع کیا۔ اس حوالے سے گوگل کے کمیونٹی مینیجر سعد حامد کا کہنا ہے: ’میرا خیال ہے کہ پاکستان میں بہت سارے ایسے چیلنجز ہیں جن پر کام کیا جا سکتا ہے۔ جب آپ آغاز کرتے وقت ان چیلنجزکو حل کرنے میں کوشاں رہتے ہیں تو اصل میں آپ اپنے دماغ کو ٹریننگ دیتے ہیں کہ یہ اس قابل ہو کہ مسائل کو حل کرسکے۔‘
آبادی کے لحاظ سے دنیا کے پانچویں بڑے ملک میں بہت سارے چیلنجز ہیں۔ جیسے تعلیمی نظام کے مسائل جہاں دو کروڑ 20 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں اور 20 کروڑ آبادی میں 50 فیصد لوگوں کو صحت کی سہولیات تک رسائی نہیں ہے۔ یہ نوزائیدہ بچوں کے حوالے سے بھی خطرناک جگہوں میں سے ایک ہے جہاں ہر پانچ بچوں میں سے ایک بچہ اپنی پانچویں سالگرہ تک نہیں پہنچ پاتا۔
پچھلے کچھ عرصے سے سٹارٹ اپ کمپنیوں کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جہاں اس کاروبار کی وجہ سے لوگوں کے ادھورے کام پورے ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد میں واقع پاکستان کے پہلے نیشنل انکیوبیشن سینٹر (این آئی سی) کے منصوبہ کار اور سٹریٹیجسٹ فصیح مہتا کا کہنا ہے کہ ’ان اداروں کی باہمی لچک شاندار ہے، خاص کر اس ملک میں جہاں یورپ کے برعکس چھوٹی کاروباری کمپنیاں موجود نہیں ہیں۔ ان کے پاس وسائل کی بھی کمی ہے لیکن بھر بھی ان کا وجود قائم ہے۔‘
این آئی سی میں سب سے کم عمر کاروبار کرنے والی ایک سات سال کی بچی ہے جبکہ 48 فیصد کاروباری (انٹرپرینیور) خواتین ہیں۔ یہ سٹارٹ اپ پچھلے ڈھائی سال میں دو ہزار 386 نوکریاں تخلیق کر چکا ہے۔ شمولیت اور فروغِ برادری یہاں کے رہنما اصول ہیں جبکہ خصوصی افراد کے لیے اس سینٹر میں مکمل رسائی حاصل ہے۔ یہاں اور بہت سی سرگرمیاں بھی ہوتی ہیں جیسے ڈرم سرکل (ایک ساتھ ڈرم بجانے کا عمل)، ڈے کیئر سینٹر اور بہت جلد خواجہ سراؤں کے لیے بھی کاروبار کرنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
سات کروڑ 50 لاکھ امریکی ڈالر پر مختص گورنمنٹ بزنس انوسٹمنٹ فنڈ اگنائٹ کے سی ای او یوسف حسین کا کہنا ہے کہ ’سیلیکون ویلی سے متاثر ہو کرپاکستانی انٹر پرینیورز نے ایک نئے کاروباری ماحول کو پروان چڑھایا جس کی وجہ سے اخلاقی طرزِ عمل اور شراکت داری کو فروغ ملا تاکہ جنسی عدم مساوات اور موسمیاتی تبدیلیوں پر قابو پا یا جا سکے۔‘ امریکہ میں 20 سال تک ایک کامیاب کاروباری کمپنی چلانے کی بعد حسین نے وہاں اپنا کاروبار بند کر کے مستقل طور پر پاکستان آنے کا فیصلہ کیا، اس ارادے کے ساتھ کہ آنے والے عشرے میں یہاں ٹیکنالوجی کے میدان میں انویسٹمنٹ کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اُن کی طرح بہت سارے اور لوگوں نے بھی یہ اقدام اٹھایا۔
حکومت نے بھی ٹیکنالوجی اور شخصی کاروبار کی اس رفتار کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کیا ہے۔ حکومت نے 2017 میں ایک ضابطے کا اعلان کیا جس کے تحت مقامی درجے کی چھوٹی کمپنیاں پاکستان میں اپنا کام شروع کر سکیں۔ ملٹی نیشنل کمپنی مائیکروسافٹ نے بھی اس طرف توجہ دی اوراب حکومت کے ساتھ ایک پالیسی فریم ورک پر کام کا آغاز بھی ہو چکا ہے تاکہ پاکستان میں ایک سٹارٹ اپ مرکز قائم کرسکے۔
دوسری پرائیویٹ کمپنیوں اور بیرونی ممالک نے بھی مائیکروسافٹ کی پیروی کی تاکہ اپنے انکیوبیٹرز (کمپنیاں) قائم کر سکیں، جیسے گوگل نیسٹ یا یوکے ایڈ کا پانچ سالہ سپرنگ ایکسیلیریٹر پروگرام، جو کہ برطانوی حکومت کے سب سے بڑے پرائیویٹ ادارے پیلاڈیم کے زیر انتظام چلتا ہے، تاکہ پاکستان جیسی اُبھرتی ہوئی مارکیٹ میں کاروبار کو سہارا دے۔ ان کاروباری سرگرمیوں میں صحت کہانی کے نام سے ایک سٹارٹ اپ بھی شامل ہیں جو شادی کے بعد گھر میں فارغ بیٹھے ہوئے 85 ہزار خواتیں ڈاکٹروں کوان لاکھوں مریضوں سے ملاتا ہے جن کو بنیادی صحت تک رسائی نہ ہو۔
خواتین کو اکثر صحت کی بنیادی سہولتوں تک رسائی میں مشکل پیش آتی ہیں کیونکہ یا تو ان کو گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہوتی یا وہاں سہولتیں نہیں ہوتی جہاں وہ رہتی ہیں۔ صحت کہانی کی مشترکہ بانی ڈاکٹر سارہ سعید کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں ایک عورت ہونے کے ناطے ہمیں بتایا جاتا ہے کہ تمھارے لیے صرف دو موزوں پیشے ہیں، ڈاکٹر بنو یا استاد۔ میرے والدین نے مجھے بتایا کہ میں نے ڈاکٹر بننا ہے، اس لیے میرے لیے کوئی دوسرا انتخاب موجود ہی نہیں تھا۔‘
اکثر والدین چاہتے ہیں کہ ان کے گھر میں کوئی ڈاکٹر بہو آجائے، لیکن شادی کے بعد وہ اسے کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے 70 فیصد ڈاکٹرز خواتین پر مشتمل ہیں جن میں صرف 23 فیصد باقاعدہ کام کرتی ہیں۔ ڈاکٹر سارہ جب اپنی شادی کی وجہ سے دوسرے شہر جا بسیں تو انہیں پہلی زچگی کے فوراَ بعد پریکٹس کے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے تنہائی کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے وہ پوسٹ نیٹل (بعد از پیدائش) ذہنی دباؤ کا شکار ہوگئیں۔
ڈاکٹر سارہ سعید کو احساس ہو گیا کہ دیگر شادی شدہ خواتین ڈاکٹروں کا بھی یہی حال ہوتا ہوگا، اس لیے انہوں نے ایک مشاورتی سروس طرز کی ایپلی کیشن بنا ڈالی تاکہ خواتین ڈاکٹرز کو اکھٹا کریں، جو اپنے گھروں سے کام کرسکیں۔ بعد میں ڈاکٹر سارہ کی ’صحت کہانی‘ نے اُن پاکستانی خواتین ڈاکٹرز کو بھی اپنے ساتھ شامل کر لیا جن کی شادی امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں ہو گئی تھی اور وہ وہاں مقیم تھیں۔ اس ایپلی کیشن کے ذریعے یا تو مریض براہ راست ڈاکٹروں سے رابطہ کرتے ہیں یا اپنے دیہی علاقوں میں موجود کلینک جاکر نرسوں کے ذریعے ڈاکٹر تک رسائی حاصل کرتے ہیں۔ دیہی کلینک کمیونٹی سینٹر کا کام بھی کرتا ہے۔
بعد میں ڈاکٹر سارہ کے ساتھ ڈاکٹر عفت ظفر بھی جا ملیں، جن کی والدہ سکون اور دوا کے مسلسل استعمال سے لڑتی ہوئی چل بسی تھیں۔ عفت ظفر کہتی ہیں: ’میرے خیال میں ان کی زندگی کا زیادہ تر حصہ مناسب علاج کی تلاش میں گزر گیا۔ اس کاروبار میں آنا ہمارے لیے بہت اہم ہے، کیونکہ یہ صرف میری ماں کی کہانی نہیں بلکہ ان سب خواتین کی کہانی ہے جو تنہائی میں زندگی گزار رہی ہیں۔‘
صحت کہانی کا کلینک ایک سٹاف شاپ کی مانند ہے جہاں مریضوں کے 80 سے 90 فیصد عام یا ذہنی مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ اس وقت پورے پاکستان میں صرف چار سو کے لگ بھگ سائیکاٹرسٹ اور سائیکالوجسٹ موجود ہیں۔
ڈاکٹر سارہ سعید کا کہنا ہے کہ ’ہم نے صرف کلینیکل ہسٹری اور جانچ پڑتال سے ایک 19 سالہ مریض کے گلے کے کینسر کا پتہ لگایا۔ ہم نے ایک بانجھ عورت کا بھی علاج کیا جن کو پچھلے آٹھ سال سے کوئی حمل نہیں ٹھہرا تھا۔ ہم نے شیزو فرینیا کے مریضوں کا بھی علاج کیا ہے۔‘
ان سٹارٹ اپس کے بانی نوجوانوں کو کیا مشکلات درپیش ہیں؟
آنے والے پانچ سالوں میں صحت کہانی نے اپنی ڈاکٹروں کے نیٹ ورک کو پندرہ سو سے پانچ ہزار تک پھیلانا ہے جبکہ اپنا دائرہ کار دس لاکھ سے ایک کروڑ 40 لاکھ لوگوں تک بڑھانے کا ارادہ ہے۔ لیکن کامیابیوں کے باوجود ان دو خواتین کو روزانہ کی بنیاد پر شکوک و شبہات کا سامنا ہے۔
دوسری طرف پاکستان کی پہلی ایڈ ٹیک سٹارٹ اپ کمپنی ’لرن او بوٹس‘ کے سی ای او فیصل لغاری کا کہنا ہے کہ ’جب میں کہتا ہوں کہ ہم نے ٹیکنالوجی کی مدد سے پاکستان کے تعلیمی میدان میں انقلاب لانا ہے تو لوگ مجھ پر ہنستے ہیں۔ اس لیے جب ہم فنڈ یا کسی کی سرپرستی لینے کے لیے رجوع کرتے ہیں تو کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں ملتے۔ لیکن ہم کبھی نہیں رکے، کیونکہ یہ صرف پیسوں کا معاملہ نہیں ہے۔‘ فیصل لغاری کا مقصد ہے کہ کل کے پاکستان کے لیے تخلیق کار اور موجد پیدا کیے جائیں اور ملک کے تعلیمی نظام میں انقلاب لایا جائے۔
جبکہ ڈاکٹر سارہ سعید کا کہنا ہے: ’آپ یقین نہیں کریں گے کہ سرمایہ کاروں کے سامنے اپنا مدعا پیش کرتے وقت میں نے ان سے یہ بات کتنی بار سنی ہے کہ ٹھیک ہے آپ دو بانی خواتین ہیں لیکن اس کاروبار کے پیچھے مرد کون ہے۔‘
شکوک و شبہات اور بلا وجہ تنقید کا سامنا نہ صرف خواتین کو بلکہ اُن دوسرے نوجوان کاروباری حضرات کو بھی ہے جو ایک نا معلوم منزل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
فیصل لغاری کے مطابق پاکستان کے نصاب میں ٹیکنالوجی کو شامل کرنے میں بڑی رکاوٹ سٹیم (سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ، ریاضی) ٹیچرز کی کمی ہے۔ اس فرق کو کم کرنے اور کم آمدنی والے لوگوں کو سائنس کی تعلیم کی طرف لانے کے لیے فیصل نے کم قیمت والا ای لرننگ پلیٹ فارم ’روبوٹ والا‘ ایپلی کیشن بنائی جو بغیر کسی استاد کے کام کرتا ہے اور جس کو صرف ایک چلانے والے یا ایک سہولت کار کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ طریقہ کار ڈرامائی طور پر سٹیم کلاسز کے خرچے کو ماہانہ ایک ڈالر تک لے آیا جس کے نتیجے میں ’لرن او بوٹس‘ اس قابل بنا کہ پاکستان اور پاکستان سے باہر لاکھوں کی تعداد میں طالب علموں تک رسائی حاصل کرلی، جس کا باقاعدہ افتتاح اس سال جنوبی افریقہ میں ہوگا۔ ساتھ ساتھ اب یورپ، چین، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت 30 ممالک سے درخواستیں بھی آنا شروع ہوگئی ہیں جبکہ ’لرن او بوٹس‘ نے 30 دوسری سٹارٹ اپ کمپنیوں کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے تاکہ پاکستان میں سٹیم ایجوکیشن کو فروغ حاصل ہو۔
اگر آپ کوئی ایسا پلیٹ فارم بنانا چاہیں تو شاید آپ کو پانچ سے دس سال لگیں لیکن اگر آپ ’یوکے ایڈ‘ کے ’سپرنگ ایکسیلیریٹر‘ کے ساتھ اندراج کرلیں تو آپ کی پروڈکٹ ایک سال سے کم عرصے میں مارکیٹ میں آئے گا۔ دوسرے سٹارٹ اپ بانی لوگوں کی طرح فیصل لغاری نے پہلے گریجویشن، پھر نوکری اور پھر شادی والی ثقافتی روایت توڑ کر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اپنی نوکری کو خیرباد کہا اور اپنے کاروبار کا آغاز کیا۔ یہ جان کر بھی کہ انہیں مستقبل قریب میں کوئی تنخواہ نہیں ملے گی۔ فیصل کا کہنا ہے: ’آپ کو روزانہ اپنے کیے پر شک ہوگا لیکن اگر آپ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں تو اس میں وقت لگے گا۔‘
باوجود اس کے کہ سٹارٹ اپ سیکٹر عروج کی طرف جا رہا ہے لیکن اب بھی اسے کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ نوجوان کاروباری طبقے کی حالیہ کامیابی، پاکستان کو برطانیہ کی طرف سے آنے والی امداد کے بارے میں جاری پارلیمانی انکوائری کی وجہ سے ابر آلود ہوگئی ہے۔ اس انکوائری کے نتائج کی وجہ سے فنڈز میں واضح کمی ہو سکتی ہے جس سے ممکنہ طور پر جاری کچھ متعلقہ پروگراموں کے وجود کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اس طرح چھوٹے کاروبار میں سرمایہ کاری نہ کرنے کی وجہ سے ان کمپنیوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان ہے۔ ساتھ ساتھ کئی سالوں سے بجلی کی مسلسل بندش نے بھی پاکستان کے کارخانوں اور چھوٹے کاروبار کو اپاہج بنا دیا ہے۔
لیکن زیادہ تر ان کمپنیوں کے بانی حضرات ہر دن کا آغاز ایک نئے انداز سے کرتے ہیں۔ این آئی سی کے فصیح مہتا کہتے ہیں کہ ’بجائے اس کے کہ پاکستان میں ایک معیشت کے اندر رہ کر یا کسی اور حال میں، جہاں ہر چیز پر نظر رکھنی پڑتی ہے، آپ کو ہر روز نئے چیلنجز کے بارے میں سوچنا ہوگا۔ یہ بانی حضرات اس قسم کی مدد کو فروغ دیتے ہیں تاکہ اس قابل ہوں کہ ان حالات میں تیز تر اور تخلیقی طور پر سوچیں۔ اِن کا باہمی لچکدار رویہ حیرت انگیز ہے۔‘
© The Independent