شاہین باغ احتجاج: ’کسی کوعوامی شاہراہیں بند کرنے کا حق نہیں‘

بھارتی سپریم کورٹ نے نئی دہلی کے شاہین باغ میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف کئی ماہ سے جاری احتجاج کے خلاف درخواست پر سماعت کے بعد مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹسز جاری کر دیے۔

دارالحکومت نئی دہلی میں شاہین باغ اور اطراف کی خواتین گذشتہ کئی مہینوں سے اس احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ (تصویر: اے ایف پی)

بھارت کی سپریم کورٹ نے پیر کو دارالحکومت نئی دہلی کے شاہین باغ میں شہریت کے متنازع قانون کے خلاف کئی ماہ سے جاری احتجاج کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ کسی کو بھی عوامی شاہراہیں بند کرنے کا حق نہیں ہے۔

سرکاری نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ میں شاہین باغ احتجاج ختم کرانے کے لیے دائر کی گئی درخواست کی سماعت کے بعد مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور دہلی پولیس کو اس ضمن میں نوٹسز جاری کر دیے گئے۔

جسٹس ایس کے کول اور جسٹس کے ایم جوزف پر مشتمل بینچ نے اپنے ریمارکس میں کہا: ’یہاں (ملک میں) ایک قانون لایا گیا ہے اور لوگوں کو اس کے خلاف شکایات ہیں۔ یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے۔ اس کے باوجود کچھ لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ انہیں احتجاج کا حق ہے تاہم آپ عوامی شاہراہوں کو بلاک نہیں کر سکتے۔ ایسے (مصروف تجارتی) علاقے میں غیر معینہ مدت تک احتجاج جاری نہیں رہ سکتا۔ اگر آپ احتجاج کرنا چاہتے ہیں تو اسے مختص جگہ پر ہی ہونا چاہیے۔‘

سپریم کورٹ کا مزید کہنا تھا کہ شاہین باغ میں احتجاج کافی عرصے سے جاری ہے تاہم اسے کسی دوسرے کے لیے مسائل کا باعث نہیں بننا چاہیے۔

بینچ نے مقدمے کی کارروائی 17 فروری تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ وہ دوسرے فریق کو سنے بغیر اس معاملے پر کوئی فیصلہ نہیں دے سکتے۔

سماعت کے آغاز پر مقدمے کے ایک درخواست گزار امِت ساہنی کا کہنا تھا کہ ’سوال یہ ہے کہ کوئی احتجاج کتنا طویل ہو سکتا ہے یا احتجاج کے حق کی کیا حدود ہیں؟‘

اس کے جواب میں بینچ نے استفسار کیا کہ ’کیا حکومت کی جانب سے کوئی نمائندہ پیش ہوا ہے۔ ہم ان (مرکزی، ریاستی حکومتوں اور پولیس) کو نوٹسز جاری کر رہے ہیں،‘

ایک اور درخواست گزار اور حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سابق رکن اسمبلی نند کشور گارگ نے بینچ سے استدعا کی کہ عدالت احتجاج روکنے کے لیے ’کچھ‘ تو ہدایات جاری کرے جس کے جواب میں ججز کا کہنا تھا کہ وہ یک طرفہ طور پر ایسا نہیں کر سکتے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بینچ نے ریمارکس دیے: ’اگر آپ 50 دن سے زیادہ انتظار کر رہے ہیں تو کچھ روز مزید انتظار کریں۔‘

واضح رہے کہ بھارت میں متازع شہریت کے ترمیمی قانون (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے خلاف پورے ملک میں مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے اور دارالحکومت نئی دہلی میں شاہین باغ اور اطراف کی خواتین گذشتہ کئی مہینوں سے اس احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

مظاہرین نے بھارتی دارالحکومت نئی دہلی اور صنعتی شہر نوئیڈا کو ملانے والی بڑی شاہراہ بند کر رکھی ہے جس سے دہلی اور نوئیڈا کے عوام کو نقل و حرکت میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔

ہر شام یہاں ہزاروں مظاہرین جمع ہوتے ہیں جبکہ گذشتہ ماہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد شاہین باغ احتجاج میں شامل ہوئے۔

بھارتی ٹی وی ’نیوز 18‘ کے مطابق شاہین باغ میں جاری اس احتجاج نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی ہے۔

بھارت کے سوشل میڈیا پر جاری ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سکھ برادری کے افراد احتجاج میں شامل افراد کے لیے لنگر تیار کر رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق لبرل اور جمہوریت پسند ہندو برادری کے افراد اور طلبہ بھی شاہین باغ کے احتجاج میں اپنی آواز شامل کر رہے ہیں۔

شہریت کے متنازع قانون کے خلاف کئی ریاستوں میں جاری احتجاجی مظاہروں کو کئی ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے اور اب تک ان مظاہروں میں پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں دو درجن سے زائد افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں جب کہ ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

پرتشدد واقعات، گرفتاریوں اور حکومت کی جانب سے کئی ریاستوں میں مواصلات اور انٹرنیٹ کی بندش کے باوجود شہریت کے متنازع  قانون کے خلاف مزاحمت اب بھی جاری ہے۔ اس قانون کے تحت ہمسایہ ممالک کی اقلیتی برادریوں کو تو بھارتی شہریت کی پیش کش کی گئی ہے لیکن مسلمانوں کو نظرانداز کر دیا گیا ہے۔

ناقدین نے اس قانون کو مسلمانوں کے خلاف امتیازی قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نریندرمودی ہندو قوم پرستی کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں تاہم ان کی جماعت بی جے پی اس الزام کی تردید کرتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا