لاہور کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے کالعدم تنظیم کے سربراہ حافظ محمد سعید اور ان کے ساتھی ملک ظفر اقبال کو دو مقدمات میں ساڑھے پانچ، ساڑھے پانچ سال (مجموعی طور پر 11 سال) قید کی سزا سنائی ہے جبکہ ان پر 15، 15 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا ہے۔
قید کی دونوں سزاؤں پر ایک ساتھ عمل درآمد ہو گا۔
پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے حافظ سعید کو گذشتہ برس جولائی میں گرفتار کیا تھا، جس کے بعد انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔
ملزمان کو آج سخت سکیورٹی میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں جج ارشد حسین بھٹہ نے حافظ سعید کو لاہور اور گوجرانوالہ میں درج مقدمات میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ 11 ایف ٹو اور 11 این کے تحت ان کی موجودگی میں سزا سنائی۔
حافظ سعید اور دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد، ساہیوال اور ملتان کی انسداد دہشت گردی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔
تاہم آج جن دو مقدمات کا فیصلہ سنایا گیا ہے ان میں حافظ سعید پر الزام ہے کہ انہوں نے فنڈز اکٹھے کرکے زمینیں خریدیں اور مساجد و مدارس بنائے اور انہیں مبینہ طور پر دہشت گردی کے لیے استعمال کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حافظ سعید اور دیگر کے خلاف مقدمہ نمبر 30 اور 32 میں مقدمہ مکمل کیا گیا تھا جبکہ دونوں کیسوں میں حافظ سعید کے خلاف کل 23 گواہوں نے بیانات قلم بند کرائے.
ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل عبدالرؤف وٹو نے ٹرائل مکمل کرایا، جن کا کہنا تھا کہ عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزائیں ایک ساتھ شروع ہونے سے ملزموں کو 11 سال کی بجائے ساڑھے پانچ سال قید بھگتنا ہوگی۔
حافظ سعید کو اپیل کا حق دیا گیا ہے اور وہ اپنی سزا کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔
اقوام متحدہ نے سلامتی کونسل کی قرارداد 1267 کے تحت حافظ سعید پر اثاثوں، بیرونی سفر اور اسلحہ رکھنے پر پابندی لگا رکھی ہے۔
اسی طرح فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے بھی حکومت پاکستان سے کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت ایکشن کو پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکالنے سے مشروط کر رکھا ہے۔
حافظ سعید کون ہیں؟
حافظ محمد سعید کی پیدائش 1948 میں اُس وقت ہوئی جب ان کا خاندان انڈیا سے پاکستان پہنچا۔ ہجرت کے اس سفر میں ان کے خاندان کے 36 افراد ہلاک ہوئے اور خاندان کا کوئی بچہ زندہ نہ رہا۔
حافظ محمد سعید کا بچپن صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا میں گزرا جہاں انہوں نے اپنی والدہ سے قرآن حفظ کیا اور گاؤں کے اسکول سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ میٹرک کے بعد مزید تعلیم کے لیے اپنے ماموں اور معروف سلفی عالم دین عبد اللہ بہاولپوری کے پاس بہاولپور چلے گئے، جہاں انہوں نے دینی تعلیم اپنے ماموں سے حاصل کی۔ ان کے ساتھ ان کے ماموں زاد کزن عبدالرحمن مکی نے بھی دینی تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد وہ دونوں لاہور آ گئے اور پنجاب یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔
1990 کی دہائی میں انہوں نے لشکر طیبہ اوردعوت الارشاد کی بنیاد رکھی اور ایک مشن کا آغاز کیا۔ فاؤنڈیشن بنا کر دُکھی انسانیت کی خدمت بھی کی۔ ان پر کشمیر جہاد میں بھرپور شمولیت اور مظفرآباد میں جہادی کیمپوں کی نگرانی کا الزام بھی لگتا رہا ہے۔ اس کے بعد باقاعدہ تنظیم سازی کے بعد انہوں نے 1986ء میں ایک ماہانہ میگزین ’الدعوہ‘ کی اشاعت کا آغاز کیا۔ اُسی وقت مرکز دعوت الارشاد کی تشکیل بھی عمل میں آئی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ اس تنظیم کا کام تبلیغ و فلاح کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے مختلف رسائل اور جرائد کے علاوہ مختلف فلاحی کاموں کا بھی سہارا لیا گیا۔ ان میں سرفہرست تعلیمی اداروں کا قیام تھا۔ مرکز الدعوۃ کے زیراہتمام ملک کے مختلف علاقوں میں مدارس کھولے گئے۔
حافظ سعید نے زیادہ توجہ پنجاب کے دیہات اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر پر مرکوز رکھی اور اس مقصد کے لیے انہوں نے پنجابی مجاہدین کو سرگرم رکھا- حافظ سعید نے اپنی سرگرمیوں کے لیے لاہور کے نواحی قصبے مرید کے میں قائم مرکز طیبہ بنایا۔
بھارت میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور کشمیر میں بھارتی فوج کے خلاف جہاد کے کئی واقعات میں عالمی سطح پر ان کا نام گونجنے لگا۔ پاکستان اور بھارت کے مذاکرات میں کئی بار حافظ سعید کی گرفتاری اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی سامنے آیا۔
حافظ سعید، عبدالرحمن مکی اور دیگر رہنماؤں پر پابندیوں اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ اُس وقت شدت اختیار کرگیا جب القاعدہ اور کئی کالعدم تنظیموں کے رہنماؤں کے ساتھ ان کا نام جوڑا گیا۔