پاکستان سپر لیگ کا پانچواں ایڈیشن 20 فروری سے شروع ہو رہا ہے اور لیگ کی افتتاحی تقریب اور پہلے میچ کے لیے عروس البلاد کراچی کا انتخاب کیا گیا ہے۔
پاکستان میں جب سے انٹرنیشنل کرکٹ کی راہیں ہموار ہوئی ہیں یہ پہلی مرتبہ ہو گا جب لیگ کے سارے میچ ملک میں کھیلے جائیں گے۔
پی ایس ایل میں حسب سابق چھ ٹیمیں آپس میں نبرد آزما ہوں گی جو مجموعی طور پر 34 میچ کھیلیں گی۔ لیگ کا فائنل 22 مارچ کو لاہور میں کھیلا جائے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے تمام ٹیموں کا جائزہ لیا ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ کون سی ٹیم اس سال لیگ جیتنے کی مضبوط امیدوار ہے۔
پاکستان سپر لیگ کی سب سے نوزائیدہ ٹیم ملتان سلطانز پر اگر سرسری نظر ڈالیں تو اس میں بڑے بڑے سورما نظر آتے ہیں، جنہوں نے متعدد موقعوں پر اپنی ٹیموں کے لیے فتح گر اننگز کھیلی ہیں لیکن دو سال قبل منظر عام پر آنے والی اس ٹیم کو یہ بڑے نام ’سلطانی‘ نہیں دلاسکے ہیں۔
دبئی میں سرمایہ کاری کرنے والے ایک گروپ نے 2017 میں جب یہ چھٹی ٹیم خریدی تو ہر ایک کی نظر اس پر تھی کیونکہ پی سی بی کا دعویٰ تھا کہ یہ سب سے مہنگی فرنچائز ہے اس لیے اس کی شان بھی دوسری ہوگی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ الگ بات ہے کہ کچھ ذرائع کے مطابق وہ گروپ اس کی جزوی قیمت بھی ادا نہ کر پایا اور پہلے ہی سال بیچ منجدھار چھوڑ کر خود خلیجی ساحل پر لنگر انداز ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق بورڈ کو اپنی مطلوبہ قیمت کا 10 فیصد بھی نہ مل سکا اور دی گئی بینک گارنٹی بھی گروی نکلی۔
وسیم اکرم اور ٹام موڈی کی نگرانی میں اس ٹیم نے پہلے سال میں شعیب ملک، کیرن پولارڈ، کرس گیل، احمد شہزاد، عمران طاہر اور سہیل تنویر کے باوجود کوئی خاص کارکردگی نہ دکھائی۔ ابتدا میں تو ٹیم جیت رہی تھی لیکن جیسے جیسے لیگ آگے بڑھی ٹیم پیچھے جاتی رہی۔
2019 کے سیزن میں جب کوئی اس ٹیم کا خریدار نہ ملا تو پاکستان کی ترین فیملی نے ٹیم کی سرپرستی سنبھال لی لیکن یہ اب تک واضح نہیں کہ مالکان نے فرنچائز کے لیے کتنی قیمت ادا کی۔
چھ تبدیلیوں کے باوجود ٹیم پہلے سال کی طرح دوسرے سال (2019) بھی بجھی بجھی رہی حالانکہ کمک کے لیے شاہد آفریدی بھی پہنچ گئے تھے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہے اور شعیب ملک کی ’ناکام‘ کپتانی پانچویں پوزیشن ہی دلاسکی۔
2020 کے سیزن میں ٹیم کے مالک علی ترین نے ایک حیران کن فیصلہ کیا اور کپتانی کا تاج ٹیسٹ اوپنر شان مسعود کے سر پر سجا دیا۔ شان مسعود ٹی ٹوئنٹی کے کھلاڑی تو نہیں ہیں لیکن حالیہ ٹیسٹ میچوں میں اچھی کارکردگی دکھا چکے ہیں۔
سکواڈ میں شامل دوسرے کھلاڑیوں میں قابل ذکر شاہد آفریدی، محمد عرفان اور سہیل تنویر جبکہ فارن پلئیرز میں جیمز ونس، ریلی رؤسو، معین علی، عمران طاہر اور روی بوپارہ ہیں ان کے علاوہ فابیان ایلن اور وائن میڈسن بھی دو ہفتے تک ٹیم کے ساتھ رہیں گے۔
وکٹ کیپنگ کے لیے انڈر 19 کے کپتان روہیل نذیر کو رکھا گیا ہے۔
بیٹنگ میں زیادہ بوجھ جیمز ونس، روی بوپارہ، ریلی رؤسو اور شان مسعود پر ہوگا جبکہ ہارڈ ہٹنگ کے فرائض شاہد آفریدی، معین علی اور خوشدل شاہ کے ذمہ ہوں گے۔ بیٹنگ کو دیکھیں تو ٹیم کمزور نظر آتی ہے کیونکہ شان مسعود قدرتی ٹی ٹوئنٹی بلے باز نہیں ہیں اور دیگر بلے بازوں میں صرف جیمز ونس ہی بڑے سکور کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
روی بوپارہ اپنے تجربے کی بنا پر ٹیم کے اہم کھلاڑی ہیں اور مڈل آرڈر میں ان سے بہت ساری توقعات بھی اسی وجہ سے ہیں۔
ٹیم میں صرف شاہد آفریدی ایسے کھلاڑی ہیں جن سے آپ کسی بھی وقت کوئی بڑی کارکردگی کی توقع کرسکتے ہیں۔ تاہم بنگلہ دیش لیگ میں ان کی بیٹنگ کوئی جادو نہیں جگا سکی تھی اس لیے اب بھی زیادہ امیدیں نہیں لگائی جا سکتی۔
بولنگ میں ٹیم خاصی خود کفیل ہے۔ ٹی ٹوئنٹی کے ماہر بولر سہیل تنویر، محمد عرفان، عمران طاہر، جنید خان اور شاہد آفریدی مخالف ٹیموں کے لیے مشکلات پیدا کریں گے۔
ایک اور بولر عثمان قادر بھی ٹیم میں شامل ہیں لیکن ان کو زیادہ چانس ملنے کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ ٹیم میں ایمرجنگ پلیئر محمد الیاس ہی رہیں گے ان کے ساتھ بلاول بھٹی اور علی شفیق بھی شامل ہیں۔
شان مسعود کے لیے ایک بڑا امتحان ہوگا کہ وہ بلے بازی کے ساتھ کپتانی کے جوہر دکھائیں کیونکہ انہوں نے اب تک کسی بھی سطح پر قیادت نہیں کی۔
ملتان سلطانز اپنا پہلا میچ 21 فروری کو لاہور قلندرز کے خلاف کھیلے گی، لاہور قلندرز بھی ایسی ہی ایک ٹیم ہے جو بڑے بڑے ناموں کے باوجود اب تک کوئی خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھا سکی ہے۔
کیا ملتان سلطانز اپنے بڑے نام کی طرح بڑی پرفارمنس بھی دے سکے گی؟ اس کا جواب آسان نہیں کیونکہ ٹورنامنٹ کی دوسری ٹیمیں بھی بھرپور محنت کر رہی ہیں اور کوئی بھی حریف آسان نہیں۔
ملتان کی گرمی، گدا اور گرد کے ساتھ کیا کرکٹ بھی پہچان بن جائے گی اس کا دارومدار شان مسعود اینڈ کمپنی کی کارکردگی پر منحصر ہے۔