احسان اللہ احسان کے سرکاری تحویل سے مبینہ فرار کے معاملے پر آرمی پبلک اسکول لواحقین نے چیف جسٹس کے نام درخواست دے دی۔ درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ لواحقین احسان اللہ احسان کے فرار ہونے پر سخت صدمے میں ہیں۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ احسان اللہ احسان کے فرار میں ذمہ دار لوگوں کو نوٹس جاری کر کے وضاحت لی جائے اور بتایا جائے کہ ریاست احسان اللہ احسان کو قانون کے کٹہرے میں لانے میں کیوں ناکام ہوئی؟
دو صفحات پر مشتمل درخواست میں مزید کہا گیا کہ ’شدت پسند احسان اللہ احسان نے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور اب اُس کے فرار ہونے سے متاثرہ خاندان کے ذہنوں میں بہت سے سوالات پیدا ہو گئے ہیں۔ احسان اللہ احسان نے 2017 میں رضاکارانہ طور پر سرنڈر کیا تھا وہ سرکاری تحویل سے کیسے فرار ہو سکتا ہے؟‘ انہوں نے سوالات اُٹھائے کہ ’کیا احسان اللہ احسان کو چند شرائط کے عوض چھوڑا گیا؟‘
اے پی ایس سانحے میں ہلاک ہونے والے میٹرک کے طالب علم اسفند خان کی والدہ شہانہ نے نمائندہ انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اور باقی والدین خصوصاً اسی مقصد کے لیے پشاور سے اسلام آباد آئے ہیں۔
شہانہ نے کہا وہ سپریم کورٹ میں انصاف کے لیے موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’جوڈیشل انکوائری رپورٹ بھی سامنے نہیں آئی اور ابھی ہم لوگ انکوائری رپورٹ کے انتظار میں ہیں کہ ہمارے بچوں کے قاتل کے فرار کی خبر نے ہمیں توڑ کر رکھ دیا ہے۔‘ شہانہ یہ سب بولتے ہوئے خود پر قابو نہ رکھ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ’کیا ہم سوال بھی نہ کریں، ہم ریاست سے سوال بھی نہیں کر سکتے؟‘ انہوں نے کہا کہ ’ہم کیوں نہ سوال کریں ہم نے بچے کھوئے ہیں اپنے۔‘
ایک اور بچے کی والدہ نے سپریم کورٹ عمارت کے باہر صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’ہمارے بچوں سے تو چڑیا گھر کا ہاتھی خوش قسمت رہا جس پر کم از کم ازخود نوٹس لیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ چار سال ہم نے جوڈیشل انکوائری کے لیے دھکے کھائے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
والدین نے کہا کہ ’اگر ہمیں انصاف نہ دیا تو ہمیں ڈر ہے کہ کہیں ہم دہشت گرد نہ بن جائیں تاکہ دل کی بھڑاس تو نکلے گی کہیں پہ۔‘ ایک والدہ نے روتے ہوئے کہا کہ ’دو بچے تھے دونوں اس سانحے میں شہید ہو گئے اب ہم صرف قبرستان میں جا کر روتے ہیں۔‘
چیکنگ کے بعد بھی صرف دو مرد حضرات کو اندر جانے کی اجازت دی گئی باقی خواتین سپریم کورٹ عمارت کے باہر پارکنگ میں موجود رہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اندر بھی نہیں جانے دیا جا رہا کہ کہیں انصاف نہ مانگ لیں۔‘
واضح رہے کہ چند روز قبل تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کے مبینہ طور پر پاکستانی سیکیورٹی اداروں کی تحویل سے فرار ہونے کی خبریں ہیں۔ احسان اللہ احسان جن کا اصلی نام لیاقت علی ہے انہوں نے تحریک طالبان کے ترجمان کی حیثیت سے کئی طالبان حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ بعد ازاں ٹی ٹی پی میں تقسیم کے بعد وہ جماعت احرار کے ترجمان بن گئے اور اس دہشت گرد تنظیم کے بھی کئی اہم حملوں کی ذمہ داری احسان اللہ احسان نے قبول کی۔