سائنس دانوں کے مطابق جنگلوں میں مینڈکوں کی کمی کے باعث سانپوں کی بڑی تعداد فاقوں سے مر رہی ہے۔
وسطی امریکہ کے جنگلوں میں مینڈک سانپوں کی غیرمعمولی خوراک ہیں، لیکن ان مینڈکوں کی 500 اقسام وسیع پیمانے پر موت کے منہ میں جا رہی ہیں اور نتیجتاً ان کی آبادی میں نمایاں کمی ہوئی ہے۔
ماہرین حیاتیات کا ماننا ہے کہ 1998 کے بعد سے مینڈک کی 90 انواع معدوم ہو چکی ہیں۔ 2004 میں پھپھوندی سے پھلینے والی وبا (فنگل پیتھوجین) سے مینڈکوں کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔
یونیورسٹی آف میری لینڈ اور مشی گن سٹیٹ یونیورسٹی کے محققین کہتے ہیں کہ آئندہ برسوں میں سانپوں اور دیگر انواع کی تعداد میں بھی نمایاں کمی دیکھی جائے گی۔
بیالوجی کے پروفیسر اور اس تحقیق کے شریک مصنف کیرن لپس کا کہنا ہے: ’اگر ہم پہلے کا موازنہ بعد (کی صورتحال) سے کریں تو ہمیں سانپوں کی برادری میں تبدیلی کا واضع فرق نظر آئے گا۔‘
’(سانپوں کی) برادری میں یکسانیت بڑھ رہی ہے۔ ان کی انواع کی تعداد کم ہوئی ہے اور کچھ انواع تو اس واقعہ کی شرح سے بھی کم ہو رہی ہیں جبکہ کچھ اقسام میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
’میںڈکوں کی آبادی میں کمی کے بعد سانپوں کی جسمانی حالت بھی بدتر ہو گئی ہے۔ ان میں سے اکثر لاغر اور فاقہ زدہ دکھائی دے رہے تھے۔‘
زیادہ تر سانپ اپنی خوراک کے لیے مینڈکوں اور خشکی اور پانی میں رہنے والے جانوروں کے انڈوں پر انحصار کرتے ہیں۔
’سائنس‘ جریدے میں شائع ہونے والے اس مطالعے میں پانامہ کے نیشنل پارک میں پھپھوندی سے پھلینے والی وبا سے پہلے چھ سالوں کے اکھٹے کیے گئے اعداد و شمار کا تقابل بعد کے چھ برسوں سے کیا گیا ہے۔
ماہرین تعلیم قطعی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ سانپوں کی کتنی انواع میں کمی ہوئی ہے کیوں کہ ان کا کھوج کم ہی ملتا ہے۔ تاہم انہیں یقین ہے کہ یہ گراوٹ دوسرے ماحولیاتی عوامل کے باعث نہیں بلکہ ان خشکی اور پانی کے جانوروں (میںڈکوں) کے ضیاع کی وجہ سے ہوئی ہے۔
یہ نیشنل پارک انسانی آبادی کے نقصان، انسانی ترقی اور آلودگی سے محفوظ ہے۔ محققین کا کہنا تھا کہ ان کی تحقیق (ان جانوروں کے) تحفظ کے مطالعے کے لیے اہم ہوگی۔
پروفیسر لپس نے کہا: ’یہ تحقیق انواع کے ناپید ہونے کے پوشیدہ اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے اثرات کے بارے میں ہماری سمجھ کے لیے طویل مدتی مطالعوں کی اہمیت پر زور دیتی ہے۔
’ہم نے دیکھا یہ سب کچھ مینڈکوں کی تعداد میں کمی کے بعد تبدیل ہوا۔ ہمیں یہ جاننا ہوگا کہ ہم کیا کھو رہے ہیں یا ہم موثر تحفظ کو ضائع کرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔‘
© The Independent