معروف مورخ، ماہر لسانیات، فلاسفی اور ماہر تعلیم پروفیسر نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کی پیشکش کرنا صرف اور صرف نوبیل انعام حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے۔
پروفیسر نوم چومسکی متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ ان کی درجنوں کتابیں کئی زبانوں میں ترجمہ ہو کر لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو چکی ہیں۔ پروفیسر چومسکی ایک طویل تعلیمی، سیاسی اور سماجی پس منظر رکھتے ہیں۔ وہ امریکی سیاست اور خارجہ پالیسی، عالمی حالات اور بین الاقوامی تعلقات پر گہری نگاہ رکھتے ہیں اور ان کے اس بارے میں دیے جانے والے لیکچرز یوٹیوب پر بھی موجود ہیں جنہیں لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے معاملے پر ثالثی کی پیشکش، امریکی صدارتی انتخابات اور افغان امن عمل جیسے اہم موضوعات پر پروفیسر نوم چومسکی کی رائے جاننے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ان سے رابطہ کیا اور ان سے کچھ سوالات پوچھے۔
انڈپینڈنٹ اردو: مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
پروفیسر نوم چومسکی: ایسا ہونا ممکن ہے لیکن یہ صدر ٹرمپ کی جانب سے کسی اخلاص کی بنیاد پر نہیں کیا جائے گا کیونکہ وہ اس نظریے سے نا آشنا ہیں، مگر یہ صرف اس لیے کیا جا سکتا ہے کہ وہ امن کا نوبیل انعام حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو: کیا امریکہ اس معاملے میں کسی قسم کا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے؟
پروفیسر نوم چومسکی: ایسا ہونا ناممکن نہیں ہے۔ امریکہ بہت اثر و رسوخ رکھتا ہے اور وہ اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہے گا لیکن کشمیر کے معاملے میں امریکہ کا ایسا کردار ادا کرنے کا امکان نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو:امریکہ اور طالبان کے درمیان افغانستان جنگ کے خاتمے سے متعلق مذاکرات کے کئی دور ہو چکے ہیں اور حال ہی میں ’تشدد میں کمی‘ کے ایک معاہدے کا اعلان بھی ہو چکا ہے۔ ان مذاکرات میں پاکستان کا کردار بھی کافی اہم رہا ہے جس کا اعتراف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکی سفیر زلمے خلیل زاد بھی کر چکے ہیں۔ کیا پاکستان افغان امن عمل میں اپنے کردار کو کشمیر کے مسئلے کے حل سے مشروط کرتے ہوئے امریکہ کو اس معاملے کے حل میں کردار ادا کرنے پر مجبور کر سکتا ہے؟
پروفیسر نوم چومسکی: ماہرانہ سفارت کاری سے ایسا ہونا ممکن ہے اور پاکستان شاید اس آپشن پر غور بھی کرے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو: کیا صدر ٹرمپ افغانستان میں جاری جنگ کو صرف الیکشن جیتنے کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور کیا پینٹاگون افغانستان سے فوجی انخلا کے بارے میں سنجیدہ ہے؟
پروفیسر نوم چومسکی: امریکہ میں اس بارے میں وسیع پیمانے پر اتفاق رائے ہے کہ افغان جنگ کو اب ختم کرنا ہوگا لیکن ایسا کرتے ہوئے یہ ذہن میں رکھا جائے گا کہ طالبان دوبارہ سے اقتدار نہ حاصل کر سکیں گو کہ یہ دونوں مقاصد ایک ساتھ حاصل کرنا کافی مشکل ہو گا۔
انڈپینڈنٹ اردو: نومبر2020 میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے کئی امیدواروں میں مقابلہ جاری ہے اور ڈیمو کریٹ پارٹی سے تعلق رکھنے والے کئی سینیٹرز اور رہنما اس دوڑ میں مدمقابل ہیں۔ ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے کس امیدوار کے صدر ٹرمپ کے ساتھ سخت مقابلے یا انہیں شکست دینے کے امکانات نظر آتے ہیں؟
پروفیسر نوم چومسکی: موجودہ صدارتی دوڑ میں کئی عوامل کے باعث ابھی اس حوالے سے صورت حال واضح نہیں ہے اور اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو: ڈیموکریٹ پارٹی کی قیادت کے درمیان اندرونی اختلاف خاص طور پر سابق صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی جانب سے ابتدائی طور پر دوڑ میں آگے رہنے والے سینیٹر برنی سینڈرز پر تنقید کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟
پروفیسر نوم چومسکی: اس کی وجہ برنی سینڈرز کی نیو ڈیل طرز کی سیاست نہیں بلکہ اس کی وجہ ان کی جانب سے سیاسی جمود توڑنا اور صحیح معنوں میں ایک عوامی تحریک شروع کرنا ہے جو صرف انتخابی سیاست تک محدود نہیں ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو: کیا سینیٹر برنی سینڈرز کی نامزدگی ممکن ہے اور اگر وہ نامزد ہو کر الیکشن میں جیت جاتے ہیں تو کیا ان کی خارجہ پالیسی عدم مداخلت کے اصولوں پر مبنی ہو گی؟ ان کی خارجہ پالیسی صدر اوباما کی پالیسی سے کتنی الگ ہو سکتی ہے؟ اور کیا انہیں ایسی پالیسی مرتب کرنے کی اجازت دی جائے گی؟
پروفیسر نوم چومسکی: امریکہ میں ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس ایک بہت طاقت ور عنصر ہے لیکن وہ اتنا بھی طاقت ور نہیں کہ برنی سینڈرز کی توانا اور مقبولیت سے بھرپور سیاسی پالیسیوں کی راہ میں حائل ہو سکے، لیکن اس کا زیادہ تر دارومدار کانگریس میں حاصل ہونے والی نشتوں پر ہوگا۔