نئے افشا ہونے والی دستاویز میں انکشاف ہوا ہے کہ چینی حکام اویغور افراد کی روز مرہ سرگرمیوں اور ان کے روییوں کی نگرانی کر رہے ہیں یہاں تک کہ انہیں داڑھی رکھنے یا زیادہ بچے پیدا کرنے پر حراستی کیمپوں میں بھیج رہے ہیں۔
ایک معاملے میں تو چینی حکام نے ایک اویغور شخص کو ’تعلیمی کیمپ‘ بھیجوا دیا اور ان کے 15 رشتہ داروں کی نگرانی شروع کر دی کیونکہ انہوں نے اپنی داڑھی بڑھا لی تھی۔
دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس شخص کے داڑھی بڑھانے اور ان کی اہلیہ کی جانب سے نقاب کرنے سے چینی حکام اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ ’مذہبی اور انتہا پسندانہ نظریات سے آلودہ ہو چکے ہیں۔‘
اس جوڑے کے ایک نوجوان بیٹے کو بھی شمال مغربی خطے سنکیانگ میں قائم ایک کیمپ بھیج دیا گیا۔
تاہم اس شخص کے رشتہ داروں کے برتاؤ کا قریب سے معائنہ کرنے کے بعد چینی عہدیداروں نے مزید ’خفیہ نگرانی‘ کے لیے انہیں واپس ان کی برادری میں بھیجنے کی سفارش کی۔
جرمن نیوز چینل ’ڈی ڈبلیو‘ اور ’بی بی سی‘ کو موصول ہونے والے 137 صفحات پر مشتمل دستاویز میں کہا گیا ہے کہ اس میں ان 311 افراد کی فہرست بنائی گئی ہے جنہیں 2017 اور 2018 میں قراقس کاؤنٹی میں ’دوبارہ تعلیم‘ کے لیے بھیج دیا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان افراد کو حراست میں لینے کی جو وجوہات بتائی گئی ہیں ان میں روزہ رکھنا، داڑھی بڑھانا، پاسپورٹ کے حصول کے لیے درخواست دینا اور سرکاری برتھ پالیسی سے زیادہ بچے پیدا کرنا شامل ہیں۔
اس فہرست میں چین کے مغربی خطے سنکیانگ کے تین ہزار سے زیادہ افراد کی نجی معلومات درج ہیں جن میں قراقس کیمپ بھیجے گئے 311 افراد سے وابستہ خاندانوں کے 1800 سے زائد ارکان، پڑوسیوں اور دوستوں کے مکمل نام اور شناختی نمبر شامل ہیں۔
کہا جا رہا ہے کہ اس فہرست میں بچوں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
اس میں ڈاؤن لوڈ کی گئی ویڈیوز اور انٹرنیٹ پر ہونے والی گفتگو کے دوران بھیجے گئے پیغامات، چہرے کی شناخت کرنے والے کیمروں کے ساتھ ہائی ٹیک نگرانی، جاسوسوں کے وسیع نیٹ ورک، گھروں کے دوروں اور تفتیش کی تفصیلات فراہم کی گئی ہیں۔
نوٹنگھم یونیورسٹی سے وابستہ ماہر رائن تھم نے ’ڈی ڈبلیو‘ کو بتایا: ’تفصیل کی سطح بہت وسیع ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ تصور کرنا دلچسپ ہے کہ یہ واقعات سنکیانگ میں ہو رہے ہیں۔ جو ڈیٹا موجود ہے وہ چونکا دینے والا ہے۔‘
دستاویزات کے مطابق جہاں حراست میں رکھے گئے زیادہ تر افراد کی رہائی منظور کی گئی (جن کو بعد میں بھی زیر نگرانی رکھا جانا تھا) تو ان میں سے درجنوں افراد کو کارخانوں میں زبردستی کام کرنے پر ’مجبور‘ کیا گیا۔
2014 سے اب تک 20 لاکھ اویغور مسلمان اور دیگر نسلی اقلیتوں کو انسداد دہشت گردی کی ایک مہم کے تحت کیمپوں میں نظر بند کیا گیا ہے۔
چین کا اصرار ہے کہ وہ خطے میں انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے ’پیشہ ورانہ تربیت‘ کے مراکز کو چلا رہا ہے۔ تاہم ان ’ووکیشنل ٹریننگ سنٹرز‘ میں حراست میں رکھے گئے افراد نے الزام لگایا ہے کہ قیدیوں کو ان مراکز میں تشدد، طبی تجربات اور اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
گذشتہ ماہ یہ بات سامنے آئی تھی کہ چینی حکام نے خطے میں 100 سے زیادہ اویغور مسلمانوں کے قبرستانوں کو مسمار کیا ہے جس کے بارے میں انسانی حقوق کے گروپس کا کہنا ہے کہ یہ چینی حکومت کی جانب سے مسلم اقلیت کی ثقافت کو ختم کرنے کی مہم کا حصہ ہے۔
© The Independent