پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ کے جیکب آباد شہر سے ایک ماہ قبل مبینہ طور پر اغوا ہونے والی علیزہ (ہندو نام مہک کماری عرف نانکی) کی کم عمری کو مقامی عدالت نے تسلیم کرتے ہوئے ضلعی انتظامیہ کو ہدایت کی ہے کہ انھیں بچوں کے تحفظ والے ادارے بھیجا جائے جہاں انھیں بالغ (یعنی 18 سال کی عمر) ہونے تک رکھا جائے۔
نو صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں عدالت نے پولیس حکام کو علیزہ سے شادی کرنے کے دعویدار علی رضا سولنگی، نکاح خواں اور اس معاملے میں سہولت کاروں کے خلاف کم سنی کی شادی (سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ قانون) کا مقدمہ درج کرنے کی بھی ہدایت جاری کی۔
عدالتی فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے، مہک کماری کے والد وجے کمار نے کہا ’ہم اس فیصلے سے بہت خوش ہیں۔ ہمیں انصاف ملا۔ مگر جب میری بیٹی نے عدالت میں واضح طور پر کہا کہ وہ والدین کے پاس جانا چاہتی ہیں تو انھیں بچوں کے تحفظ والے ادارے کیوں بھیجا گیا؟‘
واضح رہے کہ 16 جنوری کو جیکب آباد میں کوئٹہ روڈ پر واقع نمانی سنگت کے علاقے سے ایک نوجوان ہندو لڑکی مہک کماری عرف نانکی پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئی تھیں۔
ان کے والد وجے کمار نے جیکب آباد شہر کے سول لائینز تھانے میں مقدمہ درج کروایا کہ ان کی 14 سالہ بیٹی جو نویں جماعت کی طالبہ ہیں، انہیں زبردستی اغوا کیا گیا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان کی بیٹی کا مذہب زبردستی تبدیل کروا دیا جائے گا۔
بعد میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں مہک کماری، ایک مسلمان نوجوان کے ساتھ بیٹھے دعوی کررہی تھیں کہ انھیں اغوا نہیں کیا گیا بلکہ انھوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا ہے اور اب ان کا اسلامی نام علیزہ رکھا گیا ہے اور انہوں نے اپنی مرضی سے نوجوان علی رضا سولنگی سے پسند کی شادی کی ہے۔
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ان کے قبول اسلام کی سند کی تصویر کے مطابق انھوں نے شکارپور ضلع کے گاؤں امروٹ شریف میں واقع دیوبند مکتب فکر کی درگاہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں اسلام قبول کرنے کے ساتھ نوجوان علی رضا سے شادی کی تھی اور نکاح نامے میں دعوی کیا گیا ہے ان کی عمر 18 سے 19 سال ہے اور ان سے شادی کرنے والے نوجوان علی رضا نے 2 لاکھ روپے حق مہر کی رقم لکھوائی ہے اور نکاح نامے کے مطابق یہ علی رضا کی دوسری شادی ہے۔
بعد میں عدالت نے پیشی کے دوران علیزہ عرف مہک کی عمر کا تعین کرنے کے لیے ٹیسٹ کرنے کا حکم دیا۔ 30 جنوری کو ٹیسٹ رپورٹ موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ لڑکی کی عمر 15 سے 16 سال ہے۔ جس کے بعد عدالت نے اگلی سماعت 18 فروری کو رکھی تھی۔
مقامی ہندو پنچایت کے رہنما بابو مہیش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مہک کماری کے اغوا کے بعد ہم نے شہر میں احتجاج کیا تو چند انتہا پسندوں نے امن امان کی صورتحال کو خراب کرنے کی دھمکیاں دیں۔ حتیٰ کہ مولوی نصراللہ نے اعلان کیا کہ فیصلہ ہندوؤں کے حق میں کیا گیا تو وہ عدالت پر دھاوا بول دیں گی۔ اس کے باوجود عدالت نے قانون کے مطابق فیصلہ کیا جس سے سچ کے فتح ہوئی ہے۔ لڑکی کو تحفظ والے ادارے بھیجنے کا فیصلہ شاید عارضی ہو تاکہ مذہبی شدت پسندوں کا پریشر کم کیا جاسکے۔‘
’سندھ میں زبردستی مذہب تبدیلی کے سینکڑوں کیس ہوئے ہیں مگر یہ پہلی بار ہے کہ لڑکی کی عمر کا تعین کرکے نہ صرف ان کی کم عمری کو تسلیم کیا گیا بلکہ انہیں تحفظ کے ادارے بھیجنے کے ساتھ ان سے شادی کے دعویدار لڑکے، نکاح خواں اور دیگر لوگوں کے خلاف سندھ چائلڈ میرجز ریسٹرینٹ قانون کے تحت کیس درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایسے فیصلے کی اس سے پہلے کوئی مثال نہیں ملتی۔‘