ایک نئی تحقیق کے مطابق زندگی بھر میں دس یا اس سے زیادہ جنسی ساتھی ہونے سے کینسر کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
محققین نے پتہ چلایا ہے کہ مختلف لوگوں کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرنے اور مردوں اور عورتوں میں کینسر کے خطرے کے مابین ایک اہم اعدادوشمار کا رشتہ ہے۔
یہ تحقیق، جو اینگلا رسکن یونیورسٹی اور آسٹریا، ترکی، کینیڈا اور اٹلی کے ماہرین کا مشترکہ منصوبہ ہے، برطانیہ میں 50 سال اور اس سے زیادہ عمر کے پانچ ہزار 722 افراد کے جمع کردہ اعداد و شمار پر مبنی ہے۔
وہ خواتین جنہوں نے کسی جنسی تعلق سے پرہیز کیا، ان کے مقابلے میں دس سے زیادہ لوگوں کے ساتھ جنسی تعلق رکھنے والی خواتین میں کینسر کا امکان 91 فیصد زیادہ تھا۔
جب کہ وہ مرد، جن کا کہنا تھا کہ ان کے دو سے چار جنسی ساتھی رہے، ان میں کینسر کا تناسب ان مردوں کے مقابلے میں 57 فیصد زیادہ رہا، جن کا صرف ایک یا کوئی ساتھی نہیں تھا۔ اسی طرح وہ مرد جنہوں نے دس یا اس سے زیادہ پارٹنرز رکھے ان میں کینسر کی بیماری کا امکان 69 فیصد زیادہ تھا۔
اس تحقیق میں جنسی سرگرمی اور کینسر کے مابین تعلق کی وجوہات کا تعین نہیں کیا گیا ہے، لیکن ماضی میں جنسی بیماریوں اور ہیومن پیپلوما وائرس (ایچ پی وی) کے مطالعات کو اس تحقیق میں شامل کیا گیا ہے۔
اینگلا رسکن یونیورسٹی میں اس تحقیق کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اسمتھ لی نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا ’ماضی کی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ جنسی طور پر منتقل ہونے والی کچھ بیماریوں سے کئی قسم کے کینسر لاحق ہوسکتے ہیں۔‘
شرکا میں کینسر کی ناکافی تعداد کی تشخیص کی وجہ سے سائنس دان کینسر کی اقسام سے متعلق تحقیق نہیں کرسکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ تحقیق انگلش لانگیٹیوڈنل سٹڈی آف ایجنگ (ای ایل ایس اے) میں جمع ڈیٹا کی بنیاد پر کی گئی جس میں شرکا سے پوچھا گیا کہ ان کے کتنے جنسی ساتھی ہیں اور ان کی صحت کی درجہ بندی کیا ہے۔
اس تحقیق میں شامل افراد کی اوسط عمر 64 سال تھی اور ان میں سے تین چوتھائی شادی شدہ تھے۔
محققین کے مطابق وہ لوگ جو زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتے تھے وہ کم عمر تھے، سگریٹ نوشی کا ان میں زیادہ امکان تھا، شراب نوشی اکثر کرتے تھے اور ہر ہفتے جسمانی ورزش بھی کرتے تھے۔
’بی ایم جی جنسی اور تولیدی صحت‘میں شائع ہونے والی اس تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا ہے کہ جن خواتین نے اپنی زندگی کے دوران پانچ سے زیادہ جنسی ساتھی ہونے کی تصدیق کی، انہیں ان خواتین کے مقابلے میں 64 فیصد بیماری کا سامنا رہا، جن کا کوئی ساتھی نہیں تھا یا پھر ایک تھا۔ لیکن اس معاملے میں محققین کو مردوں میں کوئی تعلق نہیں ملا۔
اس مطالعے کے مصنفین نے کہا: ’اس بات کو نوٹ کیا جائے کہ جنسی ساتھیوں کی تعداد خواتین میں دیرینہ بیماری کو محدود کرنے کے ساتھ وابستہ ہے لیکن مردوں میں نہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’یہ صنفی فرق نمایاں ہے، لیکن اس کی وضاحت کرنا آسان نہیں ہے، خاص طور پر اس وجہ سے کہ خواتین کے مقابلے میں مردوں کے زیادہ جنسی ساتھی ہوتے ہیں، جیسا کہ اس تحقیق سے معلوم ہوا ہے اور عورتیں مردوں کے مقابلے میں جنسی بیماریوں کی تشخیص کا زیادہ خیال رکھتی ہیں لہذا طویل مدتی صحت کے مسائل کے منفی اثرات سے بچی رہتی ہیں۔‘
محققین کا کہنا ہے کہ اس مطالعے کے نتائج سے کینسر کی سکریننگ کے پروگراموں میں حصہ لینے والے افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ درست سوالنامے تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
تحقیقی ٹیم کا کہنا ہے کہ مرد اور خواتین کے مابین فرق کی وجہ کے تعین کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
© The Independent