ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں نے توقع ظاہر کی ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اگلے ہفتے اپنے دورہِ بھارت میں نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی میں کمی اور دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کی حوصلہ افزائی کریں گے۔
بھارتی اخبار دی ہندو کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے اعلیٰ عہدے داروں نے جمعے کو میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ ٹرمپ وزیراعظم نریندرمودی کو شہریت کے نئے متنازع قانون اور شہریوں کی قومی رجسٹریشن کے معاملے پر امریکی تشویش سے بھی آگاہ کریں گے۔
اخبار دی ہندو کی جانب سے اس سوال پر کہ کیا صدر ٹرمپ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیش کش کریں گے؟ امریکی عہدے دار کا کہنا تھا کہ امریکی صدر لازمی طور پر دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کمی کی حوصلہ افزائی کریں گے اور دونوں ملکوں سے کہیں گے کہ وہ اپنے اختلافات دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کریں۔
امریکی انتظامیہ کے عہدے دار کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں صدر ٹرمپ پاکستان اور بھارت پر زور دیں گے کہ وہ کنٹرول لائن پر امن اور استحکام کے لیے کام کریں اور ایسے اقدامات اور بیانات سے گریز کریں جن سے علاقے میں کشیدگی بڑھے۔
گذشتہ فروری میں پلوامہ حملے میں 40 سکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کے بعد بھارت نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا، لیکن پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس الزام کو سختی سے مسترد کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پلوامہ واقعے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان شدید جھڑپ بھی ہوئی تھی۔
گذشتہ روز امریکی صدر کے دورہِ بھارت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بھارتی دفتر خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے کہا تھا کہ پلوامہ حملے کے بعد جس طرح کی مدد امریکہ سے ملی تھی اس کی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’پاکستان میں موجود دہشت گردوں کو عالمی دہشت گرد قرار دینے میں بھی امریکہ سے مدد ملی تھی۔‘
رویش کمار کا کہنا تھا کہ دورے کے دوران دونوں سربراہان کے درمیان دہشت گردی جیسے اہم معاملات پر بات ہو سکتی ہے۔
گذشتہ برس اگست سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد علاقے کا لاک ڈاؤن مسلسل جاری ہے اور معمولات زندگی معطل ہونے کی وجہ سے کشمیری عوام شدید مشکلات اور پریشانی کا شکار ہیں۔
امریکی صدر پچھلے کچھ عرصے میں متعدد بار مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیش کش کر چکے ہیں۔
انہوں نے گذشتہ برس وزیراعظم عمران خان کے دورہ واشنگٹن کے دوران ثالثی کی پیش کش کی تھی لیکن بھارت نے اسے مسترد کر دیا۔
صدر ٹرمپ نے اس کے بعد بھی ثالثی کی پیش کش کو دہرایا۔
ایک اور سوال پر کہ کیا صدر ٹرمپ امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد بھارت کو فوج افغانستان بھیجنے کا کہیں گے؟ امریکی عہدے دار نے کہا کہ اگر ٹرمپ کے دورہِ بھارت کے دوران افغانستان کا مسئلہ زیرغور آیا تو امریکہ امن عمل کی حمایت کے لیے بھارت کی جانب دیکھے گا۔
رپورٹروں کے اس سوال پر کہ کیا ٹرمپ بھارت میں شہریت کے نئے قانون اور شہریوں کے قومی رجسٹر کا معاملہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کے ساتھ اٹھائیں گے؟ ٹرمپ انتظامیہ کے عہدے دار نے کہا کہ امریکہ کو ان مسائل پر تشویش ہے اور صدر ٹرمپ بھارتی وزیراعظم سے ان معاملات پر بات کریں گے۔
توقع ہے کہ ٹرمپ خاص طور پر بھارت میں مذہبی آزادی کا معاملہ اٹھائیں گے جو موجودہ امریکی انتظامیہ کے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
امریکی عہدے دار کے مطابق صدر ٹرمپ عام بات چیت اور بھارتی وزیراعظم سے ملاقات میں بھارت میں جمہوری روایات اور مذہبی آزادی کو زیر بحث لائیں گے۔
امریکی عہدے دار نے مزید کہا کہ گذشتہ برس عام انتخابات میں کامیابی کے بعد وزیراعظم مودی نے اپنی پہلی تقریر میں مذہبی اقلیتوں کو ترجیح دینے کی بات کی تھی۔ لازمی طور پر دنیا قانون کی عمل داری کے تحت بھارت میں مذہبی آزادی برقرار رکھنے اور سب کے ساتھ ایک جیسے سلوک کے حوالے سے بھارت کی جانب دیکھ رہی ہے۔