کیمیا گر نے یہ نسخہِ نایاب بناتے وقت بڑی احتیاط سے وہ اجزائے ترکیبی اکٹھے کیے تھے جو اب اس منہ چڑاتی ہوئی معجون سے ہر آئے دن چھن چھن کر باہر نکل رہے ہیں۔ اس کے اندرسے غیر ذمہ داری، عاقبت نا اندیشی اور کوتاہ نظری ہر اہم موقعے پر کھل کر سامنے آ رہی ہے۔
تازہ ترین معاملہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیس میں سامنے آیا جب منگل کو اٹارنی جنرل انور منصور نے سپریم کورٹ کے کمرہ نمبر ایک میں موجود وفاقی وزیرِقانون فروغ نسیم اور وزیر مملکت کے عہدے پر فائز شہزاد اکبر کی موجودگی میں 10 رکنی فل کورٹ بنچ پر سنگین الزامات لگائے تو یہ حضرات خاموشی سے تماشا دیکھتے رہے۔
جمعے کو اپنے عہدے سے بے آبرو ہوکر رخصت ہونے کے چند گھنٹوں بعد پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلوں پر اپنی دل کے پھپھوڑے پھوڑتے ہوئے سابق اٹارنی جنرل نے برملا کہا کہ منگل کو جب وہ عدالت کے کمرے سے باہر نکلے تو برادرانِ یوسف نے ان کی کارکردگی کی تعریف کی اور یہ حضرات جب ان کے کمرے میں آئے تب بھی ان لوگوں نے کمرہ عدالت میں ان کی کارکردگی پر نہ صرف کوئی اعتراض نہ کیا بلکہ تعریف کے پل باندھتے رہے۔
معاملہ خراب وہاں سے ہوا جب اگلے روز سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ حکومت یا تو اعلیٰ عدلیہ پر لگائے گئے بھوںڈے الزامات کے ثبوت پیش کرے یا تحریری معافی مانگے۔
معاملات وہاں سے خراب ہونا شروع ہوئے اور پھر جمعے کو حکومت نے جواب جمع کرایا کہ اٹارنی جنرل نے منگل کو جو کچھ کہا وہ ان کی ذاتی رائے تھی۔
جواب منہ پھاڑ کے کہہ رہا تھا کہ اٹارنی جنرل کا مکو ٹھپا جا چکا ہے۔ چھند گھنٹوں بعد اٹارنی جنرل کا استعفیٰ زبان زد عام تھا۔ رات کو ٹی وی چینلوں پر فروغ نسیم وہی گھسا پٹا دفاع پیش کر رہے تھے کہ معصوم اور غافل حکومت کو اٹارنی جنرل کے بھاری بھرکم الزامات کی تو بھنک بھی نہ پڑی تھی اور یہ سارا ان کا ذاتی فعل تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فروغ نسیم البتہ کمرہ عدالت میں اور باہر نکلے کے بعد دو دن تک اپنی پر اسرار خاموشی کی وجہ بتانے سے قاصر رہے۔
اب یا تو حکومت قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے پر متعدد بار لیے گئے یو ٹرن کی طرح ایک عدد اور یو ٹرن لے یا ایک نئے قانونی اور آئینی بحران کا دروازہ کھول دے، لیکن گھوم پھر کر جو بات سامنے آئے گی وہ یہی ہے کہ اس طرح کی حرکت اس لیے ہوتی ہے کہ ہوا کے گھوڑے پر سوار عمران سرکار ہلا شیری دینے پر پہلے چڑھ دوڑتی ہے اور سوچتی بعد میں ہے، فائر پہلے کھولتی ہے اور دیکھتی بعد میں ہے کہ نشانہ کس کو بنانا تھا اور اس دوران پورس کے ہاتھی والا معرکہ سرزد ہو چکا ہوتا ہے۔
شبر زیدی کی رخصتی، جن کو عمران خان تمام مسائلِ محاصل کے تریاق کے طور پر لائے تھے، انور منصور کی رخصتی ایک بڑا دھچکہ ہے۔
اس وقت عمران کابینہ میں کھینچ تان جاری ہے لیکن اہم معاملہ یہ ہے کہ عمران خان انور منصور معاملے کو ’ذاتی رائے‘ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے کیونکہ اٹارنی جنرل کابینہ کا حصہ ہوتے ہیں اور ان کی تعیانی سے لے کر ان کی کارکردگی کی ذمہ داری بشمول وزیر اعظم سب کو لینی پڑے گی۔
ابھی پچھلے ہفتے کو ہی دیکھ لیجیے۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان آئے۔ جس دن ترک صدر نے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا اسی دن ہمارے وزیر اعظم نے یہ فیصلہ بھی کر لیا کہ وہ کچھ صحافیوں سے ملاقات کریں گے۔
اگر وہ ترک صدر کے دورے کے مثبت اثرات تک اپنی گفتگو کو محدود رکھتے تو بھی ٹھیک تھا لیکن ہم کلامی کے شوقین وزیر اعظم نے سورج کے نیچے تمام موضوعات پر طبع آزمائی کی اور ٹیپ کا بند، مولانا فضل رحمٰن پر آئین میں درج سنگین غداری کی شق چھ کے تحت مقدمہ چلانے کی ان کی دیرینہ خواہش باہر نکل آئی۔
ترکی کے صدر کا دورہ پس منظر میں چلا گیا اور مولانا بمقابلہ عمران خان سامنے آگیا۔ مہمان صدر اور ان کے ساتھ آئی ہوئی ٹیم حیران اور پریشان کہ پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ کون سی راگنی لگی ہوئی ہے۔
رہی سہی کسر ترک صدر کے سامنے ان کے وہ کلمات تھے جس میں انہوں نے ترکوں کے مشترکہ ہندوستان میں چھ سو سال تک حکمرانی کی بریکنگ نیوز انہیں دے ڈالی تھی۔
لیکن اصل معاملہ معیشت ہے جو نیچے چلی جا رہی ہے۔ آکسفورڈ اکنامکس کی حالیہ رپورٹ شرح نمو کی پیش گوئی کو 2.4 فیصد تک لے آئی ہے، وہ ملک جو دنیا کو کپاس بیچتا تھا وہاں اب کپاس کی درآمد کی تیاری ہے، ٹڈی دل نے فصلوں کو تباہ کر دیا ہے اور چین سے مدد لینے کی بات ہو رہی ہے لیکن اس کا کیا کیجیے کہ وزیر اعظم عمران خان نے صدر شی چن پنگ کو کرونا وائرس میں مدد دینے کی ہامی بھی بھر لی ہے۔ یہی وہ لمحات ہیں جب بندہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ہنسے یا روئے۔
اہم بات یہ ہے کہ بڑی صنعتیں، ٹیکسٹائلز اور زراعت جو ملازمتیں پیدا کرنے کے سب سے بڑے ذرائع ہیں، سست روی کی انتہا کو چھو رہی ہیں اور 14 فیصد کے قریب شرح سود کی وجہ سے سرمایہ کاری ٹھپ پڑی ہے جبکہ قلیل المدتی ’ہاٹ منی‘ سے ملک چلایا جا رہا ہے۔ ایسے میں 50 لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ وفا ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ رہی سہی کسر اشیائے خوراک میں شرح افراطِ زر کا 20 فیصد سے زائد بڑھ جانا ہے۔
رہی سہی کسر تیل کی مصنوعات میں ہوش ربا اضافہ اور بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کئی سو فیصد اضافہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں، اتنی مختصر مدت میں، کسی حکومت نے، چاہے وہ منتخب ہو یا غیر منتخب، عمران سرکار نے عدم مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
حالانکہ ان کے ترجمان آج بھی ’پیچھے دیکھو۔ پیچھے دیکھو‘ کی رٹ لگا رہے ہیں لیکن اب وزیر اعظم نے خود تسلیم کیا ہے کہ حالیہ آٹے اور چینی بحران ان کی حکومت کی کوتاہی ہے، لیکن اس کا کیا کیجیے کہ جن لوگوں پر اس بحران کی ذمہ داری پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں وہ ہی آج بھی حکومتی پالیسیاں ترتیب دے رہے ہیں۔ ایسے میں کوتاہی ماننے میں خلوص پر بھی سوالات اٹھیں گے۔
باوجود حافظ سعید کی حالیہ سزا کے، حسب توقع، پاکستان آج بھی گرے لسٹ پر موجود ہے۔ جمعے کی شام، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے جون تک پاکستان کو اس لسٹ پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان تمام عوامل کے معیشت پر اثرات مرتب ہوں گے۔
اگلے ہفتے امریکہ اور افغان طالبان ایک معاہدے پر دستخط کرنے جا رہے ہیں جس کے بعد امریکی اور اتحادی فوجوں کے بڑے پیمانے پر انخلا کا عمل شروع ہونے کا امکان ہے۔ حالانکہ پانچ ماہ کی طویل مدت کے بعد صدارتی انتخاب کے نتیجے کا اعلان کیا گیا ہے اور اشرف غنی کے دوبارہ صدر منتخب ہونے کا اعلان بھی کیا گیا ہے لیکن اب جبکہ اگلے ہفتے ایک بڑا قدم اٹھایا جا رہا ہے، افغان امن عمل کے مستقبل پر بہت نئے سوال اٹھ رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ تو انخلا اور معاہدے کو تین نومبر کے صدارتی انتخاب میں ایک کارڈ کے طور پر استعمال کریں گے لیکن افغانستان میں ایک اور کشت و خون کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے اثرات لامحالہ پاکستان پر پڑیں گے۔
علاقائی تنازعات، خاص طور پر پاکستان۔بھارت کشیدگی اس پوری صورتحال پر اثرانداز ہوگی جس کے پاکستان کی معیشت اور سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ کیا پاکستان اس کے لیے تیار ہے جبکہ اندرونی اکھاڑ پچھاڑ اب بھی جاری ہے۔
اس وقت لندن سے جو خبریں آ رہی ہیں وہ یہ ہیں کہ نواز شریف اندرونِ خانہ تبدیلی کے نتیجے میں عمران حکومت کے خاتمے کے ذریعے حکومتی اقتدار کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور نئے انتخابات پر زور دے رہے ہیں لیکن مقتدر حلقوں کو ڈر ہے کہ اس وقت نئے انتخابات کے نتیجے میں ن لیگ سمیت ایسی جماعتیں منتخب ہوسکتی ہیں جس کے اثرات ان کے لیے خاصے منفی ہوں گے۔ یہی وہ سیاسی بحران ہے جو ملک کو درپیش ہے۔
عمران خان نے کسی طرح فی الحال اپنے اتحادیوں کو رام کرلیا ہے لیکن اس سے بحران موخر ہوا ہے ٹلا نہیں ہے۔ یہ بحران اور معاشی بدحالی، سیاسی استحکام کے بغیر ٹلنے والا نہیں ہے۔ جتنی دیر ہوگی اتنی خرابی ہوگی۔ اس کے بغیر ہر ھفتے، ہر مہینے کوئی نیا بحران منہ کھولے سامنے کھڑا ہو گا۔