پشاور کے علاقے ریگی میں گذشتہ جمعے کو مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے پانچ ’دہشت گردوں‘ میں سے ایک کے لواحقین اور اہل علاقہ گذشتہ تین دن سے ضلع خیبر کی پاک افغان شاہراہ پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں جبکہ دوسرے کے لواحقین نے اتوار کو چارسدہ میں احتجاج کیا۔
مبینہ پولیس مقابلے کے حوالے سے پولیس کے کرائم اینڈ ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ نے میڈیا کو جاری کی گئی پریس ریلیز میں دعویٰ کیا تھا کہ ہلاک ہونے والے پانچوں افراد ’دہشت گرد‘ تھے۔
پریس ریلیز کے مطابق: ’افغانستان سے دس بارہ دہشت گردوں کے گروپ میں آنے والے یہ لوگ چارسدہ، پشاور، مہمند اور ملاکنڈ میں دہشت گرد کارروائیوں کا منصوبہ بنا رہے تھے، جن کا ریگی کے مقام پر پولیس کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں وہ ہلاک ہو گئے۔ ہلاک دہشت گردوں سے خود کش جیکٹس سمیت بھاری اسلحہ بھی برآمد ہوا۔‘
ہلاک افراد میں شامل عدنان شنواری کا تعلق ضلع خیبر کی تحصیل لنڈی کوتل سے ہے اور ان کے لواحقین اور اہل علاقہ کی جانب سے الزام عائد کیا جارہا ہے کہ انہیں جعلی پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔
پاک افغان شاہراہ پر مبینہ مقابلے کے روز جب عدنان کی لاش لواحقین کے حوالے کی گئی تو انہوں نے لاش سڑک پر رکھ کر احتجاج شروع کر دیا جو تیسرے روز بھی جاری ہے۔
دھرنے میں جماعت اسلامی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے مقامی رہنما بھی شریک ہوئے۔ عدنان کے والد اسمٰعیل خان نے بتایا کہ ان کا بیٹا خاصہ دار (اب پولیس میں ضم شدہ) فورس کا حاضر سروس ملازم تھا جسے کچھ لوگ پچھلے سال نومبر میں گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے۔
اسمٰعیل نے بتایا کہ اٹھائے جانے کے اگلے دن عدنان کو رہا کر دیا گیا لیکن پانچ دن بعد دوبارہ ان کے گھر والوں سے پوچھ گچھ کی گئی کہ عدنان کے پاس جو موبائل ہے وہ ان کے حوالے کیا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسمٰعیل کے مطابق: ’گھر والوں نے بتایا کہ عدنان کے پاس صرف دو موبائل ہیں جو آپ لوگوں نے چیک کیے ہیں باقی ان کے پاس کوئی موبائل نہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ عدنان کو دوبارہ اٹھا کر لے گئے۔ ’ہم نے ان کی رہائی کے لیے مختلف ذرائع استعمال کیے لیکن کچھ نہیں ہوا اور اب میڈیا سے پتہ چلا کہ ان کو پولیس مقابلے میں ہلاک کردیا گیا ہے۔‘
’میرا بیٹا بالکل بے گناہ تھا۔ وہ اداروں کی تحویل میں تھا۔ بتایا جائے کہ اسے کس طرح پولیس مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔ ہمیں سب سے زیادہ افسوس اس بات پر ہے کہ ان پر دہشت گردی کا ٹھپہ لگایا گیا۔‘
اسمٰعیل کے مطابق: ’اگر وہ مجرم ثابت ہوتا تو اسے عدالت میں پیش کرکے پھانسی کی سزا دیتے لیکن اس طرح جعلی مقابلے میں ہلاک کرنا کہاں کا انصاف ہے۔‘
ضلع خیبر سے رکن صوبائی اسمبلی بلاول آفریدی نے اس واقعے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمیں باقی مارے جانے والوں کا تو پتہ نہیں لیکن جہاں تک عدنان شنواری کا تعلق ہے تو ہمارے ذرائع کے مطابق وہ بے گناہ تھا اور اسے ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ اہل علاقہ اس مقابلے کے خلاف دھرنا بھی دے رہے ہیں اور وہ خود اس مسئلے کو اسمبلی میں بھی اٹھائیں گے۔
مارے جانے والوں میں سے ایک کا نام عزیزاللہ ہے اور پولیس پریس ریلیز کے مطابق ان کا تعلق ضلع ملاکنڈ سے تھا۔
اتوار کو عزیزاللہ کی ہلاکت کے خلاف چارسدہ میں بھی ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا، جس میں اہل علاقہ سمیت مختلف سیاسی پارٹیوں کے مقامی رہنماؤں نے شرکت کی۔
مزدور کسان پارٹی کے سربراہ افضل شاہ خاموش نے مظاہرین سے خطاب میں کہا کہ عزیزاللہ مزدور کسان پارٹی کے فعال کارکن تھے اور مزدوروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے تھے، جنہیں ایک جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔
افضل شاہ نے کہا: ’ہم اپنے کارکن کے قتل کے خلاف تب تک آواز اٹھائیں گے جب تک ان کے بچوں کو انصاف نہ مل جائے۔ عزیز کو درگئی لیویز نے اٹھایا تھا اور اب پولیس کے ایک جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ وہ درگئی میں تحویل میں ہونے کے باوجود پشاور کیسے پہنچ گئے۔‘
مظاہرے اور مبینہ پولیس مقابلے پر موقف لینے کے لیے خیبر پختونخوا پولیس کے ترجمان اور سی ٹی ڈی پولیس کے افسران سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا۔