ہالی وڈ کے طاقتور پروڈیوسر ہاروی وائن سٹائن پر جنسی ہراسانی، حملے اور ریپ کے الزامات سامنے آنے کے دو سال سے زائد عرصے کے بعد آخرکار نیویارک کی ایک عدالت نے انہیں ریپ اور جنسی حملوں کے مقدمے میں مجرم قرار دے دیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انہیں سب سے سنگین جنسی حملے کے الزامات سے تو بری کردیا گیا تاہم عدالت کا انہیں مجرم قرار دینے کا فیصلہ ایک ایسی پیش رفت ہے جو ’می ٹو‘ مہم کے لیے نہایت اہم سمجھی جا رہی ہے۔ جنسی ہراسانی اور حملوں کے خلاف چلنے والی می ٹو مہم نے وائن سٹائن پر الزامات سامنے آنے کے بعد اکتوبر 2017 سے دنیا بھر میں زور پکڑا اور ہزاروں خواتین کو اپنے ساتھ ہونے والی ہراسانی، حملے اور ریپ کے بارے میں بات کرنے کا موقع دیا۔
ہالی وڈ کے ایک بڑے پروڈیوسر کے حوالے سے اس ہائی پروفائل کیس کے اہم واقعات کچھ یہ ہیں۔
2017 - الزامات کا آغاز
امریکی اخبار ’نیویارک ٹائمز‘ نے ایک اہم تفتیشی رپورٹ شائع کی جس میں کئی خواتین نے وائن سٹائن پر ہراسانی اور جنسی حملوں کا الزام لگایا۔ یہ سلسلہ تقریباً 30 سالوں تک جاری رہا تھا۔
اداکارہ اشلی جڈ اور روز مکگوون ان خواتین میں شامل تھیں جنہوں نے وائن سٹائن پر الزامات عائد کیے۔
’نیویارک ٹائمز‘ کی رپورٹ کے مطابق وائن سٹائن نے کم سے کم آٹھ خواتین کے ساتھ پیسوں کے عوض معلومات افشا نہ کرنے کے معاہدوں پر دستخط کیے، جس کے تحت ان خواتین کو خاموش رہنا تھا۔
اس رپورٹ کے بعد وائن سٹائن نے ’تکلیف‘ کا سبب بننے پر معافی مانگی مگر الزامات کی سختی سے تردید کی۔ کچھ دن بعد ان کے پروڈکشن ہاؤس ’دا وائن سٹائن‘ کمپنی کے بورڈ نے ان کو بے دخل کر دیا۔
10 اکتوبر 2017 کو امریکی میگزین ’دا نیو یارکر‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ میں اطالوی اداکارہ اور فلم ساز ایشیا آرجینٹو نے دعویٰ کیا کہ وائن سٹائن نے 1997 میں ان کا ریپ کیا۔
جس کے بعد دو مزید خواتین بھی ان پر جنسی حملے کے الزامات کے ساتھ سامنے آئیں۔
وائن سٹائن ان الزامات کی تردید کرتے رہے لیکن ہراسانی کے الزامات عائد کرنے والی خواتین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور ان میں گوئنتھ پیلٹرو، انجلینا جولی اور روزانا آرکیٹ جیسی ہائی پروفائل اداکارائیں بھی شامل ہو گئیں۔
می ٹو مہم زور پکڑتی گئی اور مزید ہالی وڈ سلیبرٹیز اور دوسرے شعبوں میں بھی مردوں کے رویوں پر روشنی پڑنا شروع ہوئی۔
اکتوبر 14 کو موشن پکچر اکیڈمی آف آرٹس اینڈ سائنسز، وہ ادارہ جو آسکر ایوارڈز دیتا ہے، میں ہونے والی ووٹنگ میں وائن سٹائن کو نکالنے کا فیصلہ ہوا، جن کی فلموں نے کئی آسکر ایوارڈ جیتے تھے۔
2018 – فرد جرم عائد
مقدمے کی سست کارروائی پر تنقید سامنے آنے کے بعد نیویارک کے پراسیکیوٹرز نے وائن سٹائن پر ریپ کا فرد جرم عائد کیا۔ یہ مقدمہ 2013 میں جیسیکا مین کے ریپ کے الزامات پر چلایا گیا۔ جیسیکا کا نام تب تک سامنے نہیں آیا تھا جب تک انہوں نے عدالت میں گواہی نہیں دی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کے بعد وائن سٹائن نے پولیس کو گرفتاری دے دی اور انہیں ٹی وی کیمروں اور فوٹوگرافروں کے جھرمٹ میں سے گزار کر مین ہیٹن کی عدالت میں سماعت کے لیے لایا گیا۔
اس وقت ان کے وکیل بین بریفمن ان کے لیے 10 کروڑ ڈالر پر ضمانت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
دو جولائی 2018 کو پراسیکیوشن نے وائن سٹائن کے خلاف مقدمے میں تین اور الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی، جو کہ جولائی 2006 میں پروڈکشن اسسٹنٹ میمی ہیلی پر ’زبردستی‘ جنسی عمل کرنے کے حوالے سے تھے۔
2019 – نئی گواہی
26 اگست کو پراسیکیوٹرز نے اداکارہ اینابیلا سیورا کی گواہی کو شامل کرنے کی درخواست دائر کی۔
1992 میں ’دا ہینڈ دیٹ راکس دا کریڈل‘ اور ٹی وی سیریز ’دا سوپرانوز‘ کی کچھ قسطوں میں کام کرنے والے سیورا نے الزام لگایا کہ وائن سٹائن نے 94-1993 کے دوران مین ہیٹن میں ان کا ریپ کیا۔
ان کا کیس عدالت میں لانے کے لیے تو بہت پرانا تھا مگر وکلا کو امید تھی کی ان کی گواہی جیوری کو یہ یقین دلانے میں مددگار ثابت ہوگی کہ وائن سٹائن خواتین پر جنسی حملے کرتے رہے ہیں۔
کیس کا ٹرائل ستمبر میں ہونا تھا، مگر یہ چھ جنوری 2020 تک کے لیے ملتوی ہوگیا۔
کیس میں سیورا کی گواہی کی شمولیت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب وائن سٹائن نے بین بریفمن کو ہٹا کر جولائی میں شکاگو سے تعلق رکھنے والی وکیل ڈونا روٹونو کی خدمات حاصل کیں۔
ٹرائل شروع ہونے سے ایک ماہ قبل میڈیا رپورٹس سامنے آئیں جن میں کہا گیا کہ وائن سٹائن نے خود پر جنسی بد اخلاقی کے الزامات لگانے والی 30 سے زائد اداکاراؤں کے ساتھ ڈھائی کروڑ ڈالر کا معاہدہ کرلیا۔ یہ ایک سول کیس میں تھا جو ان پر چلنے والے فوجداری مقدمے سے الگ تھا۔
اس معاہدے کے تحت وائن سٹائن کو اپنا جرم قبول کرنے کی ضرورت نہیں۔
2020 – عدالت کا فیصلہ
فروری میں نیویارک کی ایک جیوری نے وائن سٹائن کو جنسی حملے اور ریپ کے دو الزامات پر مجرم قرار دے دیا۔
اسے می ٹو مہم کے لیے ایک تاریخی جیت قرار دیا جا رہا ہے جس سے متاثرین کے لیے ’انصاف کا نیا دور‘ سامنے آئے گا۔
یہ فیصلہ سات ہفتوں تک چلنے والے ٹرائل کے بعد لیا گیا جس میں جیوری نے جذباتی اور وحشت ناک گواہیاں سنیں، جن میں خواتین نے وائن سٹائن پر ریپ سے لے کر بدسلوکی، بےعزتی اور کیریئر خراب کرنے کے الزامات لگائے۔
جیسکا مین، جن کے ریپ کا جرم وائن سٹائن پر ثابت ہوا، جرح کے دوران اس وقت رو پڑیں، جب دفاع نے اپنے دلائل میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ان کے وائن سٹائن کے ساتھ تعلقات ان کی مرضی سے تھے۔
میمی ہیلی، جن کی گواہی پر وائن سٹائن پر مجرمانہ جنسی عمل کرنے کا جرم ثابت ہوا، نے آنسوؤں کے درمیان اپنے حملے کی تفصیلات دیں، جس میں وائن سٹائن نے ’ان کے ماہواری کے دنوں میں ان سے زبر دستی کی۔‘
وائن سٹائن کی وکیل ڈونا روٹونو نے کہا کہ پراسیکیوٹرز نے ان کے موکل کو ایک ’بھیڑیے‘ کے طور پر دکھانے کے لیے ’ایک علیحدہ ہی دنیا بنا دی۔‘
جیوری کا فیصلہ آنے کے بعد وکیل نے اس کو چیلنج کرنے کا تہیہ کیا اور فیصلے کو ’ایک مرد کی طرح‘ قبول کرنے پر ان کی تعریف کی۔
وائن سٹائن کو سزا 11 مارچ کو سنائی جائے گی۔
ان کو لاس اینجلس میں جنسی جرائم کے دو مزید الزامات کا سامنا ہے جو ریپ اور حملوں پر ہونے والی ایک اور تفتیش پر مبنی ہیں۔