ماحولیاتی ادارے گرین پیس اور ہوا کا میعار مانیٹر کرنے والی ویب سائٹ ایئرویژوال (AirVisual) کی ایک نئی تحقیق کے مطابق دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں سب سے زیادہ تعداد بھارتی شہروں کی ہے۔
تحقیق کے مطابق، بھارت کی ریاست ہریانہ میں واقع گروگرام دنیا کا سب سے زیادہ آلودہ شہر ہے جبکہ اس فہرست میں دہلی 11ویں نمبر پر ہے۔
محققین نے فضائی آلودگی کی مقدار جاننے کے لیے ہوا میں آلودگی پیدا کرنے والے PM2.5 کے نام سے پہچانے جانے والے مضرِصحت ذرات کی تعداد کو جانچا ہے۔
ہوا میں PM2.5 یا 2.5 مایکرو میٹرز سے کم قطر کے ذرات صحت کے لیے خطرناک ہوتے ہیں کیونکہ یہ پھیپڑوں میں جم جاتے ہیں اور سانس کی تکلیف کے علاوہ اور بھی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
عالمی ادارہ صحت نے فضا میں PM2.5 کی محفوظ مقدار یومیہ 25 مائکروگرام فی کیوبک میٹر طے کی ہے۔
اس نئی رپورٹ کے مطابق گروگرام کی PM2.5 کی سالانہ اوسط 135.8 مائکروگرام فی کیوبک مییٹر ہے جسے ایئرویژول ’بہت خطرناک‘ کا درجہ دیتا ہے۔
عالمی ادارہِ صحت کے مطابق فضائی آلودگی سے ہر سال 70 لاکھ لوگ ہلاک ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہر دس میں سے نو لوگ آلودہ ہوا میں سانس لے رہے ہیں۔
دہلی میں فضا میں PM2.5 کی سالانہ اوسط مقدار 113.5 مائکروگرام فی کیوبک میٹر ہے۔
دہلی دنیا کا سب سے آلودہ دارالحکومت تصور کیا جاتا ہے۔ گاڑیوں اور صنعتی اخراج، عمارتوں کی تعمیر کی جگہوں سے اٹھتی دھول اور جلتی ہوئی فصل کی باقیات اور کوڑے سے اٹھتے دھویں نے دہلی کی ہوا کو ذہریلا بنا رکھا ہے۔
گرین پیس جنوب مشرقی ایشیا کے سربراہ یب سانو نے کہا: ’فضائی آلودگی ہمارے روزگار اور مستقبل کو چھین رہی ہے مگر ہم اسے بدل سکتے ہیں۔‘
یب سانو کے مطابق فضائی آلودگی کا اتنی بڑی تعداد میں لوگوں پر اثر انداز ہونے سے عالمی نقصان 25 ارب کے قریب ہے جبکہ طبی اخراجات کھربوں میں ہیں۔
گرین پیس اور ائروژول کے مطابق اس نئی تحقیق میں جہاں بھارتی شہروں کی فضا ٹھیک نہیں وہیں چین میں حالات بہت تیزی سے بہتر ہوئے ہیں۔
گرین پیس کے مطابق 2018 میں چینی شہروں میں PM2.5 کی اوسط مقدار 2017 کے مقابلے میں 12 فیصد تک کم ہوئی ہے۔
چین نے ماحولیاتی قواعد کو نافذ کرنے اور آلودگی پھیلانے والی صنعتوں کو روکنے کے لیے کئی سالوں تک جدوجہد کی، لیکن حال ہی میں بہتر قانون سازی اور ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے سیاسی زور سے اسے بہت فائدہ ہوا ہے۔
تحقیق میں شامل اداروں نے کہا کہ چین میں اس رجحان کی وجہ سے ہوا میں PM2.5 کی تعداد کم کرنے میں سال ہا سال بہتری آئی ہے۔
گرین پیس بھارت کی ترجمان پوجارینی سین نے کہا: ’اب سوال یہ ہے کہ بھارت اس صحت کی ہنگامی صورتحال سے لڑنے اور آلودگی پیدا کرنے والے ایندھن اور طریقوں کو چھوڑنے کی سیاسی خواہش کتنی رکھتا ہے۔‘