سرخ اور نیلے رنگ کی شوخ قمیض، آنکھوں پر ایک رنگ برنگی عینک اور بیک گراؤنڈ میں سالگرہ کی مناسبت سے سجی ہوئی ایک دیوار، یہ تھا اس ویڈیو کا منظر جو ناصر خان جان نے میری بہن کی سالگرہ پر اسے مبارک باد دینے کے لیے اپنے فیس بک پیج پر اپ لوڈ کی تھی۔
گذشتہ ہفتے میری بہن کی سالگرہ تھی۔ یہ سوشل میڈیا دور کے بچے ہیں، ان کی سالگرہ پر ٹھیک ٹھاک محنت کرنی پڑتی ہے تب کہیں جا کر یہ خوش ہوتے ہیں۔ چین میں بیٹھے بیٹھے پاکستان میں موجود بہن کی سالگرہ کو خاص کیسے بنایا جائے، یہ ایک الگ مرحلہ تھا۔ پورا دن سوچ بچار میں گزارنے کے بعد ایک دم میرے ذہن میں ناصر خان جان کا نام گونجا۔ ناصر اپنے فیس بک پیج پر برتھ ڈے ویڈیوز اپ لوڈ کرتے ہیں۔ ان ویڈیو میں وہ ’ہیپی برتھ ڈے‘ گا کر لوگوں کو سالگرہ کی مبارک باد دیتے ہیں۔
بس میں نے ناصر سے ایک برتھ ڈے ویڈیو بنوانے کا فیصلہ کر لیا۔ ناصر سے ان کے فیس بک پیج کے ذریعے رابطہ کیا۔ انہوں نے ویڈیو کی فیس ادا کرنے کا کہا جو میں نے اگلے کچھ مںٹوں میں ان کے بنک اکاؤنٹ میں منتقل کر دی، ساتھ ہی ایک چھوٹا سا سکرپٹ بھی بھیج دیا۔ 20 منٹ بعد انہوں نے ویڈیو بنا کر مجھے واٹس ایپ پر بھیج دی اور 12 بجتے ہی اپنے پیج پر بھی اپ لوڈ کر دی۔ اس دوران ناصر کا رویہ انتہائی پروفیشنل رہا۔
جب ناصر کی بنائی ہوئی ویڈیو میں نے اپنی بہن کو بھیجی تو پہلے وہ حیران ہوئی پھر خوشی کے مارے اچھلنے لگی۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے وہ ویڈیو اپنے واٹس ایپ سٹیٹس پر شیئر کر دی تب مجھے سمجھ آیا کہ یہ چھوٹی سی ویڈیو کیسے لوگوں میں خوشیاں بانٹ رہی ہے۔ لوگ یہ ویڈیوز اپنے پیاروں کو چھیڑنے کے لیے بنواتے ہیں مگر حقیقت میں یہ ویڈیوز اور ان سے جڑی چھیڑ چھاڑ ان کے لیے زندگی بھر کی یادگار بن جاتی ہیں۔
دوسروں کی زندگی میں اتنے رنگ بھرنے والے ناصر خان جان سوشل میڈیا سیلیبریٹی سے زیادہ ایک مذاق تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کی ہر ویڈیو اور پوسٹ کے جواب میں لوگ انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ کچھ کمنٹس میں تو انہیں مرنے کا مشورہ بھی دیا جاتا ہے۔ کچھ ایسے سوشل میڈیا بلاگر اور وی لاگر بھی ہیں جن کا مواد بالکل معیاری نہیں ہوتا لیکن وہ عوام میں مقبول ہیں، اس کی وجہ ان کا وہ سٹائل ہے جو ناصر خان جان کے پاس نہیں ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نہ ناصر کے پاس مہنگے کیمرے ہیں اور نہ ہی ڈرون، وہ اپنی ویڈیوز کو ایڈٹ بھی نہیں کرتے، ان کی ویڈیوز میں جو سیٹ اپ نظر آتا ہے وہ بھی سادہ سا ہوتا ہے۔ ہم جن وی لاگروں اور بلاگروں کو سوشل میڈیا پر فالو کرتے ہیں، ان میں سے اکثریت اپنی ویڈیوز میں اپنے مہنگے فون اور گاڑیوں کا استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ کبھی وہ کسی بڑے سے ریستوران میں یونہی کافی پینے چل دیتے ہیں تو کبھی بوریت مٹانے کے لیے فلائٹ پکڑ کر سکردو پہنچ جاتے ہیں۔ اب اس دوران وہ جو بھی بولیں، ہم کون سا سن رہے ہوتے ہیں، ان کے کیمرے، ایڈٹنگ اور سٹائلش لُک ہی ہمیں ان کا فین بنا دیتی ہے۔
دوسری طرف ناصر خان جان ہیں جو اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق مواد بنا کر سوشل میڈیا پر مشہور ہوئے لیکن انہیں وہ داد نہیں ملی جو ان کے ’سٹائلش‘ ہونے کی صورت میں انہیں ملتی۔
ناصر خان جان کہتے ہیں کہ شروع میں وہ ایسے کمنٹس سے وہ بہت پریشان ہوتے تھے، پھر انہوں نے سوچا کہ وہ کچھ لوگوں کی وجہ سے پیچھے کیوں ہٹیں۔ انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ لوگوں کا ردِ عمل وہی تھا لیکن اب انہیں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ ناصر نے اسی مذاق کو پیسے کمانے کا ذریعہ بنا لیا۔ اب لوگ ان کا مذاق اڑانے کے لیے ان کو ہی پیسے ادا کرتے ہیں۔ یہاں کہنا بنتا ہے کہ اچھا کھیل گیا لونڈا۔
ناصر نے اپنی مدد کے لیے ایک چھوٹی سی ٹیم بھی رکھی ہوئی ہے جو ان کے سوشل میڈیا پیج چلاتی ہے۔ ان کے پاس اپنا ایک سٹوڈیو بھی ہے جس کی ایک دیوار انہوں نے سالگرہ کی مناسبت سے سجائی ہوئی ہے۔ برتھ ڈے ویڈیوز وہ اسی دیوار کے سامنے کھڑے ہو کر بناتے ہیں۔ ناصر نے بتایا کہ وہ ایک اور سٹوڈیو بھی بنوا رہے ہیں جو وہ دیگر ویڈیوز کے لیے استعمال ہو گا۔
ناصر نے بتایا کہ ایک طرف سوشل میڈیا نے ان کی زندگی بنائی ہے تو دوسری طرف بگاڑی بھی ہے۔ سوشل میڈیا نے انہیں شہرت دی ہے، پیسہ دیا ہے لیکن ان کے خاندان کو ان سے دور کر دیا ہے۔ وہ جس علاقے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں کے لوگ ان کے کام کو مناسب نہیں سمجھتے۔ ناصر شادی کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ جہاں رشتہ بھیجتے ہیں وہاں بات طے ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی ہے۔
پتہ نہیں اسے قدرت کی ستم ظریفی کہیں یا کچھ اور کہ دوسروں کی زندگیوں میں خوشیوں کے رنگ بکھیرنے والے کی اپنی زندگی بےرنگ ہے۔