ہم دیسیوں کو گورے رنگ سے بہت محبت ہوتی ہے۔ ہماری جلد کا رنگ قدرتی طور پر بھورا ہے لیکن ہم اسے گورا کرنا چاہتے ہیں۔
اس کے لیے ہم کیا کیا پاپڑ نہیں بیلتے، فیئرنس کریم، بلیچ اور فیشل سے لے کر گھریلو ٹوٹکے تک آزماتے ہیں۔ خواہش بس اتنی کہ رنگ گورا ہو جائے اور ہم بھی خوبصورت کہلوائیں، پر کیا کریں ان ٹوٹکوں کا اثر صرف بیرونی جلد پر ہوتا ہے، ہمارے خلیوں میں موجود جین جو ہماری جلد کا رنگ طے کرتے ہیں، ان ٹوٹکوں سے محفوظ رہتے ہیں۔
ویسے تو گورے رنگ کا یہ دباؤ زیادہ تر خواتین پر ہوتا ہے لیکن مرد بھی اب اس کے شکنجے میں پھنستے جا رہے ہیں۔ بازاروں میں مرد اور عورت دونوں کے لیے رنگ گورا کرنے والی کریمیں عام دستیاب ہیں اور بیوٹی پارلر میں سکن وائٹننگ فیشل سب سے زیادہ کروایا جانے والا فیشل ہے۔ رہی سہی کسر کچھ اداکار اور اداکارائیں پوری کر چکے ہیں۔ ہم اپنی آدھی عمر انہیں سانولا دیکھتے رہے اور اب اچانک وہ گورے ہوئے پڑے ہیں۔ اب ہم سب تو اتنے مہنگے سکن ٹریٹمنٹ حاصل نہیں کر سکتے تو ہمارا زور ابٹن، فیشل اور بلیچ پر ہی لگتا ہے۔
لیکن کیا ان سب طریقوں سے جلد کا رنگ مستقل بدل جاتا ہے؟ نہیں، قدرت نے ہمیں جو رنگ عطا کیا ہے، اسے تبدیل کرنا نا ممکن ہے۔ ہاں ہم اپنی جلد کو نکھار ضرور سکتے ہیں لیکن ہمارا مقصد اپنی جلد کا خیال رکھنا اور اسے نکھارنا نہیں بلکہ اپنے قدرتی رنگ سے چھٹکارا پا کر ایک ایسا رنگ حاصل کرنا ہے جو ہمارے نزدیک خوبصورتی کا معیار ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ یہ خوبصورتی کا معیار کس نے بنایا ہے؟ کس نے کہ دیا کہ ایک خاص قسم کا رنگ ہی خوبصورت تصور کیا جائے گا یا ایک خاص طرح کا جسم ہی پر کشش کہلائے گا؟ ہمیں ان معیاروں کو توڑنے کی ضرورت ہے۔
اسی گورے رنگ کے کمپلیکس کی وجہ سے اچھے بھلے بچے خود کو دوسروں سے کم تر محسوس کرتے ہیں۔ اکثر انہیں اس بات کا احساس ان کے اپنے گھر والے ہی دلاتے ہیں۔ یہ بچے اپنے رنگ کی وجہ سے ہمیشہ احساسِ کمتری کا شکار رہتے ہیں اور اس وجہ سے ان کی شخصیت نکھر نہیں پاتی۔
گذشتہ برس ایک کام کے سلسلے میں حیدرآباد کے قریب واقع ایک گاؤں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ شام میں کچھ خواتین سے ملاقات بھی طے تھی۔ ایک گھر میں داخل ہوئے تو ایک دس سالہ بچی صحن میں چارپائی پر بیٹھی کیلے کے چھلکے سے اپنا چہرہ رگڑ رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے تو وہ شرما گئی۔ میں نے اس کا چہرہ قریب سے دیکھا تو اس کے گالوں پر بھورے رنگ کے چھوٹے چھوٹے نقطہ نما نشان نظر آئے۔ ایسے نشان مغرب میں خوبصورتی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ وہاں کی خواتین میک اپ کا استعمال کر کے اپنے گالوں پر ایسے نشان بناتی ہیں۔
میں نے اسے یہ بتایا تو وہ بے یقینی سے مجھے دیکھنے لگی ۔ میں نے اسے ایک میک اپ آرٹسٹ کی ویڈیو دکھائی جس میں وہ اپنے گالوں پر ویسے ہی نشان بنا رہی تھی۔ تب اسے میری بات کا یقین آیا اور وہ مسکرانے لگی۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ بہت خوبصورت ہے اور یہ نشان اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں۔ اگر یہی بات اس کے گھر والے اسے بچپن سے بتاتے تو وہ محض دس سال کی عمر میں خوبصورت دکھنے کے اس جھنجھٹ میں نہ پھنستی۔
جانے اس خوبصورت نظر آنے کی خواہش اور دباؤ کے پیچھے کتنوں کے بچپن اور کتنوں کی جوانیاں برباد ہوئیں، پھر بھی وہ اپنے رنگ سے ناخوش رہے۔ انہیں کبھی نہیں بتایا گیا کہ اصل خوبصورتی انسان کا اعتماد ہوتا ہے جونہ صرف اس کی شخصیت کو نکھارتا ہے بلکہ اس کے چہرے کو بھی روشن کرتا ہے۔ ہمیں یہ سب کوئی نہیں بتاتا۔ بتایا جاتا ہے تو بس یہ کہ ہمارا رنگ کتنا گہرا ہے اور ہماری جلد کتنی داغ دار ہے۔
چاند سی دلہن کی خواہش کے پیچھے بھی یہی گورے رنگ کا کمپلیکس ہوتا ہے۔ پہلے تو گوری بہو ڈھنڈنے کے لیے شہر بھر میں جوتے گھساتے ہیں، بہو گھر آ جائے تو خاندان بھر کو اکٹھا کر کے اپنا گوہرِ نایاب ایسے دکھاتے ہیں جیسے زندگی بھر کی کمائی بس یہی ہو۔ مزہ تو تب آتا ہے جب پوتے پوتیاں ان کے بیٹے کا رنگ روپ لے کر دنیا میں وارد ہو جاتے ہیں۔ تب یہ شرمندگی سے اپنے پوتے پوتیوں کو میرا لعل اور میرا چاند کہہ کر پیار کرتے نظر آتے ہیں۔ کچھ سال بعد انہی بچوں کو ان کے رنگ کی وجہ سے باتیں سنانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہی ہماری غلطی ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کو خود سے نفرت نہیں، محبت کرنا سکھانی ہے۔
ہمیں انہیں یہ بتانا ہے کہ قدرت نے انہیں جیسا بنایا ہے وہ ان کے لیے پرفیکٹ ہے۔ وہ جیسے ہیں، خوبصورت ہیں اور ان جیسا دنیا میں کوئی نہیں۔ انہیں اپنا رنگ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں بس اپنی شخصیت کو نکھارنا ہے اور اس کے لیے انہیں اپنے اوپر اعتماد کرنا ہو گا۔ ہم اپنے بچوں کو اس سوچ سے بہتر تحفہ نہیں دے سکتے۔ بس پھر اپنے بچوں کو بھی یہی سکھائیں اور دوسروں کے بچوں کو اس کمپلیکس والی عینک سے دیکھنا بند کر دیں کیونکہ ہر انسان خوبصورت ہوتا ہے۔