بدین سے 30، 35 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک گاؤں آباد ہے جہاں جت قبیلے کے مرد و خواتین شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کے حافظ ہیں اور یہ وہ گاؤں ہے جہاں سب سے پہلے شاہ کا رسالہ ’شاه جو گنج‘ ترتیب دیا گیا۔
اس گاؤں کا نام ’بڑ جو ڈھورو‘ ہے۔ یہاں حضرت شاہ عبداللطیف بھٹاٸی کے کنویں کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹاٸی اس گاؤں سے بہت محبت کرتے تھے اوراس قبیلے کا شاہ کے کلام میں جابجا ذکر ملتا ہے۔
یہ گاؤں سمندر کے قریب آباد ہے اور کسی زمانے میں یہاں سے سوداگروں کے قافلے جوق در جوق گزرا کرتے تھے۔ یہاں موجود نہرکے، جسے مقامی زبان میں ڈھورو کہتے ہیں، کنارے پر ایک بہت بڑا درخت ہوا کرتا تھا، جس کی نسبت سے گاؤں کا ’بڑ جو ڈھورو‘ نام پڑ گيا، جو اب وقت کی آندھیوں کی نذر ہو چکا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شاہ کے کلام کی پہلی حافظہ
اس گاؤں میں ایک خاتون گگاں جتن اور عبدالعظیم جت کی قبریں موجود ہیں۔ گگاں جتن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حضرت شاہ عبداللطیف کے کلام کی پہلی حافظہ تھیں اور عبدالعظیم جت نے شاه جو گنج ترتیب دیا۔ گنج کا مطلب شاہ کی مکمل شاعری ہے۔
گگاں جتن دادی گگاں کے نام سے یاد کی جاتی ہیں۔ گاؤں کے مرد اور عورتیں خود کو حضرت شاہ عبداللطیف بھٹاٸی کے مرید کہتے ہیں اور صدیوں سے شاہ کی شاعری حفظ کرنے کی رسم اس گاؤں میں چلی آ رہی ہے۔
ضلع بدین اور ٹھٹھہ کو عام زبان میں لاڑ کہا جاتا ہے اور لاڑ کا یہ علاقہ حضرت شاہ عباللطیف بھٹاٸی کے حافظوں کا مور پنکھ وطن ہے۔ یہاں آپ کو ہزاروں کی تعداد میں اس عظیم شاعر کے حافظ ملیں گے۔ یہاں کی راتوں میں ہر دوسرے گاؤں میں ’شاہ جی کچہری‘ ہوتی ہے، یعنی حضرت شاہ عبداللطیف بھٹاٸی کے حافظ اکٹھا ہو کر محفلیں جماتے ہیں اور یہ محفلیں قابل دید ہوتی ہیں۔
حضرت شاہ عبداللطیف بھٹاٸی کے حافظوں کی تلاش میں ہم نے تلہار کے قریب ایک بچی رخسانہ چانڈیو کو ڈھونڈ ہی نکالا جو خود، ان کے والد اور ایک بھاٸی شاہ کے کلام کے حافظ ہیں۔ ہم ماتلی میں ایک ایسے مقامی وڈیرے سے بھی ملے جن کا کہنا تھا کہ انہوں نے آج تک زندگی میں سب سے زیادہ خرچ شاہ ساٸیں کی محفلوں پر کیا ہے۔
اس سادہ مزاج اور نیک دل وڈیرے کا کہنا تھا کہ لطیف کے ذکر میں جو سکون ملتا ہے وہ اور کسی چیز میں نہیں پایا۔
سو سالہ ناتھو فقیر
لاڑ میں بڑ جو ڈھورو سے ایک راستہ شیخانی گھاڑی کی طرف جاتا ہے، جو شیخ زکریا ملتانی کے نام سے منسوب ہے۔ وہاں پر موجود یوسف فقیر ستی جتی کے مزار کا سفید گنبد لاڑ کے اس ویرانے کا سفید پھول مانا جاتا ہے۔ سامنے دودو سومرو کے تخت گاہ روپاہ ماڑی کے قدیمی آثار موجود ہیں اور ناتھو فقیر یہاں رہتے ہیں۔
ناتھو فقیر ایک سادہ لوح انسان ہیں۔ وہ اس درگاه کے گدی نشین اور شاعر ہیں۔ مقامی لوگ انہیں زندہ ولی مانتے ہیں مگر ان کی پہچان کا اصل حوالہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹاٸی ہیں۔
ناتھو فقیر شاہ ساٸیں کے حافظ اور لوک دانش کا مجسمہ ہیں۔ آج وہ بصارت سے محروم کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کے شب و روز شاہ لطیف کے کلام سے روشن ہیں۔
یوسف فقیر ستی جتی کی درگاہ پر چاند کی ہر 12 تاریخ کو ناتھو فقیر محفل لطیف کا اہتمام کرتے ہیں، جس میں گردونواح کے علاقوں سے حضرت شاہ عبداللطیف کی شاعری کے سینکڑوں حافظ اور شاعر جمع ہوتے ہیں۔
ناتھو فقیر کا کہنا ہے کہ ان کا گاؤں شیخانی گھاڑی شاہ ساٸیں کے بہادر اور جنگجو کردار ’لاکھو پھلانی‘ کے حوالے سے بھی پہچانا جاتا ہے اور حضرت شاہ عبداللطیف بھٹاٸی نے اپنی زندگی میں اس گاؤں کی خاک کو اپنے پیروں سے خاک شفا میں تبدیل کیا۔ انہوں نے یوسف فقیر ستی جتی کے حوالے سے بتایا کہ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹاٸی کے کلام میں ان کا حوالہ پایا جاتا ہے۔
ناتھو فقیر اپنے خاندان کے بزرگ سے منسوب حضرت شاہ عبداللطیف بھٹاٸی کا شعر سناتے ہوئے آب دیدہ ہو گئے۔
سہارے کے بغیر چلنے پھرنے سے لاچار سو سالہ ناتھو فقیر حضرت شاہ عبداللطیف کے حوالے سے اپنی خدمات پر محکہ ثقافت سندھ سے شاہ لطیف لاٸف ٹاٸم اچیومنٹ ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔
محققین کا خیال ہے کہ حضرت شاہ عبداللطیف کی شاعرانہ زبان پر سب سے زیادہ اثر لاڑ کے لہجے کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ خطہ آج بھی حضرت شاہ عبداللطیف بھٹاٸی کے کلام کو نسل در نسل اور سینہ بہ سینہ منتقل کرتا آ رہا ہے۔
ناتھو فقیر جیسے بھٹاٸی کے کلام کے عاشق اور محفلیں سجا کر اپنے مرشد کے آفاقی شعر کے حسن سے اپنی راتوں کو منور رکھے ہوٸے ہیں۔ ان کے دن بھٹاٸی کے ابیات سے طلوع و غروب ہوتے ہیں۔ جت قبیلے کے لوگ اپنی ہر خوشی کا جشن اور ہر سوگ اسی کلام سے جوڑ کر رکھتے ہیں۔