کل ہمیں فٹ پاتھ پر ایک ایسے بھائی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا، جو گھوم پھر کر لیپ ٹاپ بیچ رہے تھے۔ آپ کا صدا لگانے کا انداز وہی تھا، جو مسافر بَس میں ہاضمے کی پھکی بیچنے والے کسی نیم حکیم کا ہوتا ہے۔
موبائل کمپیوٹر فروش ایک لیپ ٹاپ کھول کر ہاتھوں میں اٹھائے اور باقی کا مال کندھے پر لٹکے بیگ میں ڈالے نہایت پُراعتماد انداز میں آواز لگاتے جا رہے تھے: ’ لِب ٹاپ لے لو، لِب ٹاپ۔‘ ہم نے انہیں رکنے کی زحمت دی اور کمپیوٹر سے متعلق معلومات چاہیں۔ کمپیوٹر فروش نے پہلے تواس نایاب پروڈکٹ میں دلچسپی لینے پر ہمیں مبارک باد پیش کی، پھر لیپ ٹاپ کو ہاتھوں میں گھماتے ہوئے اس کے حسن اور خدوخال پر ایک جامع خطاب فرمایا۔ نیز آپ نے اس کی واحد باطنی صلاحیت بھی آشکار کر دی کہ ’اس میں سی ڈی ڈالو تو فلم چلتا ہے!‘
خان صاحب نے ازراہِ کرم ہمیں لیپ ٹاپ کا معائنہ کرنے کی اجازت بھی دے دی۔ لیپ ٹاپ اپنے بیچنے والے کی طرح ایسا منکسرالمزاج نکلا کہ اس نے ہماری ہرممکن کوشش کے باوجود فلم چلانے کےعلاوہ اپنی مزید کسی صلاحیت کا اعتراف کرنے سے صاف معذرت کرلی۔ اس بھائی نے تا اختتام ملاقات اپنی زبان پرقائم رہے کہ اس میں سی ڈی ڈالو تو فلم چلتا ہے اور کمپیوٹر نے ان کی زبان کی لاج رکھی۔
کمپیوٹر فروش اپنے قول اور لیپ ٹاپ کے فعل میں یکسانیت ثابت کرنے کے لیے اس میں سی ڈی ڈال کر ہمیں مسرت شاہین کے ایک ڈانس کی جھلک بھی دکھائی۔ ہمیں ’کمپیوٹر‘ کی اس بے توقیری پر دلی صدمہ ہوا۔ تاہم اپنی اندرونی کیفیات چھپاتے ہوئے ہم نے پرانی پشتو فلم کا ایمان افروز منظر دکھانے پر بھائی کا شکریہ ادا کیا اور اجازت چاہی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم واپس جانے کے لیے مڑے ہی تھے کہ اس کے شفیق ہاتھ کا لَمس ہمیں اپنے کندھے پرمحسوس ہوا۔ انہوں نے ایسا شاندار سائنسی آلہ خریدنے کا نادر موقع ضائع کرنے پر نرم الفاظ میں ہماری مذمت کی اور ’لیپ ٹاپ‘ خریدے بغیر ہمیں اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا۔ اب ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ قبل ازیں ہم راولپنڈی صدرکےعلاقے میں ایسی سنگین غلطی کرچکے ہیں، جب دو قالین فروش ہمارے سامنے آ گئے اور ہم خواہ مخواہ اس کی قیمت پوچھ بیٹھے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ یہ ایرانی قالین ہے اوراس کی قیمت دس ہزار روپے ہے۔ ہم نے ہاتھ لگا کر جائزہ لیا تو وہ ادنیٰ درجے کی دری نکلی جس پر قالین کا میک اپ کیا گیا تھا۔
اب تماشا یہ شروع ہوا کہ ہم آگے آگے تھے اور دونوں قالین اٹھائے ہمارے تعاقب میں رواں تھے۔ وہ بار بار ایک ہی سوال دہرا رہے تھے: ’تم قالین کا کتنا پیسہ دیتا ہے؟‘ آخر جب ہم ان سے جان چھڑا کر اپنی گاڑی میں بیٹھنے میں کامیاب ہوئے تو وہ رعایت کرتے کرتے دس ہزار سے آٹھ سو روپے تک آ چکے تھے۔
لیپ ٹاپ فروش بھائی بھی جب 15 ہزار روپے سے دو ہزار تک پہنچے تو ہمیں یقین ہوگیا کہ ان کا سائنسی آلہ حقیقت میں معمولی سا سی ڈی پلیئر ہے، جس پر لیپ ٹاپ کا ملمع چڑھایا گیا ہے۔ آخر جب ہم نے بھائی سے راہِ فراراختیار کی تو دورتک ان کی ’لِب ٹاپ لے لو، لِب ٹاپ‘ کی صدائیں کانوں سے ٹکراتی رہیں اورہم سوچتے رہے کہ ہم بھی کیسی عجیب قوم ہیں جو اپنے ہی ہم وطنوں کو لیپ ٹاپ کے نام پر سی ڈی پلیئرز، قالین کے نام پر دریاں، علم کے نام پر جہالت، مذہب کے نام پر تنگ نظری، انصاف کے نام پر ظلم اور روشنی کے نام پر اندھیرے مہیا کر رہے ہیں۔
ہم وہ کج ادا ہیں جو جعلی ادویات بناتے ہیں، دودھ میں پانی، مرچوں میں اینٹیں اورچائے میں لکڑی کا برادہ ملاتے ہیں مگر پھر بھی خود کو برگزیدہ قوم تصور کرتے ہیں۔ ہم ایسے عجیب الخلقت واقع ہوئے ہیں، جو ناپ تول میں ڈنڈی مارتے ہیں، ذخیرہ اندوزی کرتے ہیں، رشوت لیتے ہیں، دوسروں کا حق مارتے ہیں، یتیموں کا مال کھاتے ہیں، زمینوں کی خرید و فروخت میں فراڈ کرتے ہیں، دو نمبر ویزوں کا کاروبار کرتے ہیں، سڑکوں اورعمارتوں کی تعمیرمیں ناقص میٹریل استعمال کرتے ہیں، نلکوں سے بوتلیں بھرکر منرل واٹر کے نام پر بیچتے ہیں اور پھر جب اسی کمائی سے عمرے پر جاتے ہیں تو دیدہ دلیری سے دعویٰ کرتے ہیں کہ مدینے سے بلاوا آ گیا ہے۔
دنیا میں ہمارے رہنماؤں کی پہچان کرپشن، نااہلی، بیڈ گورنس، بے اختیاری اور کم علمی ہے مگر وہ خود کو ملک کو ایشین ٹائیگر اور ریاست مدینہ بنانے والے سمجھتے ہیں۔
صفائی ہم اپنا نصف ایمان بتاتے ہیں مگرگندگی پھیلانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ شہرشہر، قریہ قریہ، گلی گلی کوڑاکرکٹ پھیلانے میں ہمارا اپنا ایک مقام ہے۔ ملک کو صاف ستھری قیادت مہیا کرنے کی خاطرمولانا فضل الرحمٰن کا دھرنا 80 ٹن کچرا پھیلا کر ختم ہوا۔ ایسے ہی ارفع مقاصد کے لیےعمران خان کے دھرنے نے اس سے کہیں زیادہ کچرا پھیلایا۔ صفائی کے متعلقہ ادارے یہ گند تو چند دن کی محنت سے صاف کردیتے ہیں مگر یاد رہے کہ بے رحم تاریخ ایسے دھرنوں کوان کے کچرے سمیت ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں سمولیتی ہے۔
مہذب دنیا میں تدبر، رواداری، ایمانداری، قانون کی پاسداری، سچ، احترام انسانیت اور صفائی عالمی اخلاقیات کے معیار ہیں، مگرہمارا ان ’خرافات‘ سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بے ایمانی ہماری پہچان ہے اور بے حکمتی طرۂ امتیاز۔ انصاف سے ہمیں یارا نہیں اور احترامِ انسانیت ہمیں وارا نہیں۔ قانون کی خلاف ورزی ہمیں مرغوب ہے اور جھوٹ ہمارامحبوب ہے۔ کام چوری ہماراشعار ہے اور گندگی سے ہمیں پیار ہے۔
یہاں دونمبر لیپ ٹاپ بنانے والوں سے لے کر قومی خزانے کو شیرِمادر سمجھنے والوں تک، قالین نما دریاں بیچنے والے بیوپاریوں سے لے کر بچیوں کے سکول جلانے والوں تک، جعلی ادویات تیار کرنے والوں سے لے کرجعلی ڈگریوں کے حامل عوامی نمائندوں تک، دودھ میں پانی ملانے والوں سے لے کر کوآپریٹیو سکینڈل کے حرام خوروں اور مضاربہ سکینڈل کے حلوہ خوروں تک، عمارتوں میں ناقص مٹیریل استعمال کرنے والوں سے لے کر پاناما لیکس کے کرداروں تک، یتیموں کا مال کھانے والوں سے لے کر بجلی اورگیس کی لوڈشیڈ نگ کے ذمہ داروں تک، دونمبر ویزوں کا دھندہ کرنے والوں سے لے لوگوں کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کر کے ہاؤسنگ سوسائیٹیاں بنانے والوں تک اور ناپ تول میں ڈنڈی مارنے والوں سے لے کر نان ایشوز پر دھرنے دے کر کچرا پھیلانے اور سڑکیں بند کرکے لوگوں کوتکلیف پہنچانے والوں تک، کسی کے اقوال و افعال میں رَتی برابر دانش یا انسانیت دوستی تلاش کرنا محال ہے۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما، مولوی، منصف، دانشور، بیوروکریٹس، تاجر، استاد، سرکاری ادارے سب کے سب پختون بھائی کے ’لیپ ٹاپ‘ ہی تو ہیں، جن میں ’فلموں‘ اور ’ٹوپی ڈراموں‘ کی سی ڈیز چلانے کے علاوہ اور کوئی صلاحیت سرے سے موجود ہی نہیں، ورنہ ملک کی یہ حالت ہوتی؟