وادی کیلاش کے آخری گاؤں شیخانندہ میں برف پوش میدان میں صدیوں سے کھیلے جانے والا دلچسپ کھیل ’برفانی ہاکی’ وہ واحد کھیل ہے جس کا ایک گول سات کلومیٹر کا چکر کاٹنے سے پورا ہوتا ہے جبکہ اس کا میدان ساڑھے تین کلومیٹر طویل ہوتا ہے۔
اس کھیل کو چترالی زبان میں ہیم غال، اردو میں برفانی ہاکی اور انگریزی میں سنو ہاکی کہا جاتا ہے۔
نہایت ہی مخصوص انداز اور نرالے اصولوں کا یہ کھیل صدیوں سے شیخانندہ اور وادی کیلاش کے مکین کھیلتے آرہے ہیں۔ اس کھیل میں بیک وقت دو ٹیمیں کھیلتی ہیں اور ہر ٹیم 25 سے 30 کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
اس میں بیک وقت دونوں ٹیموں کے کپتان لکڑی کی بنی ہوئی سیاہ رنگ کی گیند کو لکڑی کی مخصوص ہاکی سے ہِٹ کرتے ہیں۔ جب کوئی کھلاڑی ہاکی سے گیند کو نہایت زور سے آگے پھینکتا ہے تو ساتھ ہی دوسری ٹیم کا کپتان یا کھلاڑی بھی اسی انداز میں گیند کو زور سے مارتا ہے۔ ہر ٹیم کے کھلاڑی ہر پانچ سو میٹر کے فاصلے پر کھڑے ہوتے ہیں جبکہ ہاتھوں میں زرد رنگ کے جھنڈے پکڑے ہوئے ریفری بھی ہر پانچ سو میٹر کے فاصلے پر موجود ہوتے ہیں جو اس کھیل کی نگرانی کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت فوری فیصلہ بھی کرتے ہیں۔
برفانی ہاکی کھیلنے کے لیے برف پوش میدان میں مشرق اور مغرب کی طرف ایک مخصوص مقام پر دو لکڑیاں ٹھونک کر نشان لگایا جاتا ہے تاکہ ان دونوں لکڑیوں کے درمیان میں سے بال گزار کر گول کیا جاسکے اور جب کوئی کھلاڑی ان دونوں لکڑیوں کے درمیان میں سے بال گزار کر پھینکتا ہے تو ایک پوائنٹ شمار ہوتا ہے یعنی ایک گول ہوجاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کھیل میں گیند کو ہاتھ یا پاؤں لگانا منع ہے۔ اگر کسی نے غلطی سے بھی اسے ہاتھ سے پکڑ کر برف سے باہر نکالا تو اس ٹیم کا ایک گول ضائع ہوتا ہے اور محالف ٹیم کو ایک گول یعنی ایک پوائنٹ دے دیا جاتا ہے۔
میچ کے آغاز پر جج صاحبان یعنی جیوری کے اراکین ہر گیند پر چاقو کی مدد سے مخصوص نشان لگاتے ہیں تاکہ یہ گیند دوسری ٹیم کے ساتھ بدل نہ جائے اور یہ سلسلہ ہر بار بال سٹارٹنگ پوانٹ سے پھینکتے وقت جاری رہتا ہے یعنی ہر بار گول کرنے کے بعد جب دوسری گیند پھینکی جاتی ہے تو اس پر بھی مخصوص نشان لگایا جاتا ہے تاکہ ہر ٹیم کی اپنی گیند ہو اور اسے اسی ٹیم کے کھلاڑی آگے پھینک سکیں۔
جب ہر ٹیم کے کھلاڑی اپنی اپنی گیند ہاکی سے مارتے ہوئے آگے دوسرے ساتھی کو پاس کرتے ہوئے بڑھاتے ہیں تو آخری پوائنٹ پر کھلاڑی دو لکڑیوں کے درمیان میں سے گیند گزار کر واپس اسی مقام کی طرف اچھال دیتے ہیں۔ جس ٹیم کی گیند شروع سے لے کر آخری سرے تک جاتی ہے اور وہاں سے پھر شروع والے مقام پر پہنچ جاتی ہے تو اس کا ایک گول یعنی ایک پوائنٹ شمار ہوتا ہے اور اسی ٹیم کا کپتان دوسری بال پر جج سے نشان لگوا کر پھر بال گیند پھینکتا ہے۔ مگر مزے کی بات یہ ہے کہ اگر دوسری ٹیم کی گیند واپس نہ بھی آئی ہو، اس کے باوجود بھی وہ ٹیم اپنی گیند پر جیوری کے اراکین سے نشان لگوا کر اسے پھینکتی ہے اور جب ان کی پہلی گیند واپس اسی جگہ پر پہنچ جاتی ہے تو اس کا بھی ایک گول یعنی ایک پوائنٹ شمار ہوتا ہے۔
یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور ہر ٹیم کوشش کرتی ہے کہ جلدی جلدی سے اپنی گیند آگے کی طرف پھینک کر اپنے دیگر ساتھی تک پہنچائے اور وہ اسے آگے پاس کرتا جائے۔ جس ٹیم کی زیادہ گیندیں شروع سے لے کر آخری جگہ سے ہوتے ہوئے واپس آغاز والے مقام پر پہنچ جاتی ہیں، اس ٹیم کے اتنے ہی گول شمار ہوتے ہیں۔
اس ٹورنامنٹ کے آرگنائزر محفوظ اللہ کہتے ہیں کہ اس کھیل کو وہ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت کھیلتے ہیں۔ ’یہ کھیل کئی سو سال پہلے نورستان سے یہاں منتقل ہوا ہے۔ ہم لوگ بھی نورستان سے ہجرت کرکے چترال آئے اور اپنے ساتھ برفانی ہاکی کا یہ نرالا کھیل بھی ساتھ لائے۔اس کھیل کو چھوٹے بڑے سب نہایت شوق سے کھیلتے ہیں اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔‘
برفانی ہاکی کھیلنے والی ٹیم برون کے نائب کپتان فضل ربی نے بتایا کہ وہ پچھلے 40 سالوں سے یہ کھیل کھیل رہے ہیں۔ جو کھلاڑی جتنی زور سے بال مار کر آگے پھینکتا ہے اتنا ہی اس کا جذبہ بڑھ جاتا ہے، پھر وہ مخصوص انداز میں چھلانگ بھی لگاتا ہے اور ساتھ ہی آواز بھی لگاتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کھیل کے لیے انہیں حکومت کی طرف سے کوئی بھی مالی یا تکنیکی امداد نہیں دی جاتی۔‘
کراکاڑ ٹیم سے تعلق رکھنے والے نورستان نے بتایا کہ اس کھیل میں مسلمان اور کیلاش دونوں اکھٹے کھیلتے ہیں اور ابھی تک کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوا۔
انہوں نے بتایا کہ جب یہ میچ ختم ہوتا ہے تو جیتنے والی ٹیم سے ایک کھلاڑی یا کپتان کو ایک دن کے لیے وادی کا بادشاہ بنایا جاتا ہے جسے مقامی زبان میں مہتر کہتے ہیں۔ مہتر جو بھی حکم دیتا ہے، وادی کے تمام لوگ اس کو ماننے کے پابند ہوتے ہیں۔ وہ اپنی طرف سے ایک بیل ذبح کرتا ہے اور لوگوں کی ضیافت کراتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹوررازم کارپوریشن خیبر پحتونخواہ دعوے تو بہت کرتی ہے کہ ہم سیاحت کو فروغ دیتے ہیں مگر اس نایاب اور مخصوص کھیل کو ترقی دینے کے لیے ان کی طرف سے کوئی بھی امداد نہیں دی گئی اور نہ ہی ان کا کوئی عہدیدار آیا ہے۔ اگر حکومت تھوڑی سی بھی مدد کرے تو اس کھیل کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے سیاح یہاں آئیں گے اور اس سے اس وادی کی معیشت پر نہایت مثبت اثرات پڑیں گے۔
ماضی میں اس کھیل کے دوران نہ تو کوئی تماشائی اور نہ ہی راہگیر گیند کی نشان دہی کر سکتے تھے اور جب گیند برف میں تیزی سے گر جاتی تو بعض اوقات کھلاڑی اسے ڈھونڈنے میں کئی منٹ لگا دیتے تھے مگر اس بار جیوری کمیٹی نے اس میں تھوڑی نرمی پیدا کی ہے اور کوئی بھی کھلاڑی یا تماشائی برف میں گرنے والی گیند کی نشان دہی کرسکتا ہے۔
ایک کھلاڑی امیر حمزہ نے بتایا کہ ’اس مخصوص کھیل کے لیے ہمارے پاس کوئی باقاعدہ سٹیڈیم یا کھیل کا میدان بھی موجود نہیں ہے، ہم لوگوں کے کھیتوں میں یہ کھیل کھیلتے ہیں۔‘
دوسری جانب شیر عالم نامی ایک کیلاش کھلاڑی نے بتایا کہ ان کھیتوں میں پتھر بھی پڑے ہیں، یہاں کھڈے بھی اور نالیاں بھی ہیں۔ کھیل کے دوران کھلاڑی پتھر سے بھی ٹکرا سکتا ہے یا نالے، کھڈے میں گر کر اس کا ہاتھ پاؤں بھی ٹوٹ سکتا ہے، جس کے لیے نہ تو یہاں کوئی ایمبولنس موجود ہے اور نہ ہی طبی عملہ۔ یہاں تک کہ اس وادی کے واحد ہسپتال میں بھی کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔‘
حال ہی میں اس کھیل کا سیمی فائنل میچ برون اور کڑاکاڑ ٹیم کے درمیان کھیلا گیا جس میں برون ٹیم نے چار کے مقابلے میں نو گولوں یعنی نو پوائنٹس سے کڑاکاڑ کو شکست دی۔ سیمی فائنل کے بعد وادی میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اب اس کا فائنل میچ موسم پر انحصار کرتا ہے کہ کب موسم صاف ہوتا ہے تاکہ اس کا فائنل میچ کھیل کر ایک دن کے لیے وادی میں مہتر یعنی بادشاہ بنایا جائے۔