دوحہ میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے مطابق القاعدہ اور خود کو دولت اسلامیہ کہلوانے والی تنظیم داعش پر پابندی ہوگی۔
افغانستان میں طالبان کے بعد القاعدہ اورداعش کی افرادی قوت کی موجودگی ایک حقیقت ہے اور دونوں دھڑوں میں جنگی صلاحیت بھی موجود ہے لیکن القاعدہ میں شامل زیادہ تر جنگجوؤں کا تعلق عرب ممالک سے ہے جس کی وجہ سے وہ افغانستان میں طالبان کی اجازت کے بغیر غیرملکی فورسز کے خلاف یا علاقے کے امن و امان میں خلل ڈالنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ دوسرا یہ کہ القاعدہ میں قیادت کا تعلق تو عرب ملکوں سے ہے لیکن ان کے جنگجو زیادہ تر مقامی بتائے جاتے ہیں۔
افغانستان کے بہت سے علاقوں میں داعش کی موجودگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن عوامی حلقوں میں داعش کو اتنی پذیرائی حاصل نہیں جتنی طالبان کو حاصل ہے۔ پاکستان میں افغان طالبان کو پناہ کی سہولت حاصل تھی اور ہے لیکن داعش کو یہ سہولت میسر نہیں۔
طالبان ذرائع کے مطابق داعش کو طالبان کی قیادت نے چار ماہ کے لیے افغانستان کے اندر حالات خراب نہ کرنے پر راضی کیا ہے۔ وہ اس دوران افغانستان میں کسی قسم کی کارروائی نہیں کریں گے۔ داعش کے ذرائع کے مطابق اس تنظیم کی رضامندی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ افغانستان میں امریکی ڈرون حملوں سے طالبان کے مقابلے میں داعش کو زیادہ نقصان پہنچا ہے جبکہ امریکہ کی طرف سے زمینی کارروائیوں میں بھی زیادہ تر داعش نشانہ بنی ہے۔
امریکہ کی موجودگی میں داعش اپنی قوت برقرار نہیں رکھ سکتی لہذا امریکی انخلا کے بعد وہ دوبارہ ابھر سکتے ہیں، اس لیے وہ فی الحال خاموش رہیں گے۔
اس کے علاوہ کویت اور دوسرے عرب ممالک میں اہل حدیث سے تعلق رکھنے والے مخیر حضرات کی جانب سے داعش کو مالی تعاون حاصل ہے۔ افغانستان کے شمالی علاقے تخار، بدخشاں اور قندوز اور ازبکستان اور تاجکستان کی سرحد سے متصل افغان آبادیوں میں اہل حدیث مسلک کے ماننے والے زیادہ آباد ہیں اس لیے بتایا جاتا ہے کہ آنے والے چار ماہ کے اندر داعش جنگجو افغانستان کے دوسرے علاقوں سے ان علاقوں میں منتقل ہو جائیں گے۔ ازبکستان اور تاجکستان سے تعلق رکھنے والے اسلامی جنگجوؤں میں سے زیادہ تر اہل حدیث کے لوگ شامل ہیں۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کی مالی معاونت عرب ہی کرتے تھے لیکن جب سے القاعدہ کے تعلقات ایران کے ساتھ بہتر ہوئے ہیں تو عربوں نے مالی تعاون چھوڑ دی ہے۔ مبصرین کے خیال میں داعش وقت کے ساتھ ساتھ ازبکستان اور تاجکستان سے ہوتے ہوئے روس پہنچے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان طالبان کے علاوہ افغانستان میں یونس خالص، نصراللہ منصور، سراج الدین حقانی اور جماعت دعوی یعنی مولوی سمیع اللہ گروپس کے جنگجو موجود ہیں۔ البتہ وہ افغانستان میں امریکہ اور ان کے حامیوں کے خلاف لڑنے میں طالبان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ دوحہ معاہدے سے پہلے ہی انہیں افغان طالبان نے اعتماد میں لے لیا ہے، اس لیے ان کا پرامن رہنے کا امکان ہے۔
مبصرین کے خیال میں طالبان کو امن معاہدے تک لانے میں پاکستان کا بہت اہم کردار رہا، جس کے بدلے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کو یہ باور کرایا گیا ہے کہ وہ افعانستان میں اسلام آباد حامی حکومت لائیں گے۔
پاکستان میں سرکاری طور پر کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں بھارت کی سرگرمیاں امریکہ کی موجودگی کی وجہ سے زندہ ہیں۔ جب امریکی فوج کا انخلا شروع ہوگا تو پھر ممکن نہیں کہ افغانستان میں بھارت اپنی سرگرمیاں برقرار رکھ سکے۔ پاکستان کے خیال میں بھارت کا افغانستان میں کردار محدود ہونے سے بلوچستان میں بھی امن قائم ہو جائےگا۔
ان تمام باتوں کے باوجود پاکستان میں آباد افغان باشندوں کو خوف ہے کہ ایک دفعہ پھر اقتدار کے حصول کی ایک طویل جنگ نہ شروع ہو جائے۔