خلافِ توقع گذشتہ ہفتے دوحہ میں امن کے قیام کے لیے کیے گئے معاہدے سے بھی افغانستان میں فوری طور تشدد کا خاتمہ نہیں ہوا. طالبان نے اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ مسترد ہونے کے بعد حملوں کا سلسلہ دوبارہ شروع کر دیا جب کہ امریکی بھی ان حملوں کے جواب میں فضائی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
تاہم مخالف فریقین ایک بات پر متفق ہیں اور وہ یہ کہ ان میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ (آئی سی سی) اس طویل اور خونی جنگ کے دوران پیش آنے والے مظالم کے الزامات کی تحقیقات کرے۔
امریکہ انٹرنیشنل کریمینل کورٹ کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتا جب کہ اسے تسلیم کرنے والا افغانستان بھی عدالتی تحقیقات کی مخالفت کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ طالبان بھی اپنے جنگجوؤں کو دا ہیگ کے غیرملکی اور ’کافرانہ انصاف‘ کے کٹہرے میں پیش نہیں کریں گے۔
یہ واقعتاً آئی سی سی کا ابتدائی نتیجہ تھا جب اس نے اپنی چیف پراسیکیوٹر اور گیمبیا کی وکیل فاتوؤ بینسوڈا کی جانب سے دائر کی گئی تحقیقات کی درخواست کو مسترد کر دیا۔ اس نے اس بات پر زور دیا کہ قانونی کارروائی کی کامیابی کا امکان انتہائی مشکوک ہے کیونکہ امریکہ، افغان حکومت اور طالبان عدالت سے تعاون سے انکار کر دیں گے۔
امریکی انتظامیہ نے اس وقت کہا تھا کہ وہ آئی سی سی کے اس عملے کو ویزے جاری نہیں کریں گے یا پہلے سے جاری ویزوں کو منسوخ کر دیں گے جو افغانستان میں یا کہیں اور امریکی شہریوں کے خلاف لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کے لیے ملک میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے۔ امریکہ نے ایسا ہی کیا اور فاتوؤ بینسوڈا کا ویزا فوری طور پر منسوخ کر دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کوئی بھی توقع کر سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ، جنہوں نے افغانستان میں جنگی جرائم کے الزامات کے کا سامنا کرنے والے امریکی فوج کے اہلکاروں کو صدراتی معافی دی ہے، امریکی فوج کی خواہشات کے خلاف جائیں گے اور ٹوئٹر پر آئی سی سی کے خلاف باتیں کہیں گے۔
اس کے باوجود، آئی سی سی کی تحقیقات آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس کے اپیل کرنے والے چیمبر کا کہنا ہے کہ ایک ذیلی عدالت نے پہلے فیصلے پر پہنچنے میں تنظیم کے کچھ اصولوں کی غلط تشریح کی تھی۔
چیئرپرسن پیوٹر ہوفمانسکی نے کہا: ’استغاثہ کو اختیار حاصل ہے کہ 2003 سے ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ افغانستان میں پیش آنے والے دیگر مبینہ جرائم کے حوالے سے بھی تحقیقات کا آغاز کرے۔‘
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آئی سی سی کس طرح شواہد اکٹھا کرے گا اور ان رکاوٹوں کے پیش نظر کیسے مبینہ مجرموں کو عدالت کے کٹہرے میں پیش کرے گا اور ان پابندیوں سے نمٹنے کے لیے کیا اقدام اٹھائے گا۔
تاہم اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ انصاف کی تلاش ترک کر دینی چاہیے۔
جیسا کہ انسانی حقوق کی تنظیم ’فریڈم فرام ٹارچر‘ کے پالیسی اور وکالت کے ڈائریکٹر سٹیو کریوشا نے نشاندہی کی ہے: ’یہ اعلان اس لیے بھی اہم ہے کہ یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ کسی کو بھی جنگی جرائم اور اذیت رسانی جیسے جرائم سے ماورا نہیں ہونا چاہیے۔ تشدد سے آزادی حاصل کرنے والے بہت سے افراد جنہوں نے ’فریڈم فرام ٹارچر‘ سے رابطہ کیا ہے ان کا تعلق افغانستان سے ہے اور ہم جانتے ہیں کہ ان پر حکومت اور عسکریت پسندوں نے یکساں طور پر تشدد کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا: ’ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اذیت دینے سے ’یقینی نتائج ملتے ہیں۔‘ اس طرح کا بیان دنیا بھر میں اذیت دینے والوں کو جواز فراہم کرتا ہے۔ ہمیں اس طرح کی خطرناک باتوں کا مقابلہ کرنا ہو گا۔ اذیت دینے والوں کا لازمی طور پر احتساب ہونا چاہیے، چاہے وہ جس کسی کی بھی نمائندگی کریں اور جہاں بھی ہوں۔‘
یہ آئی سی سی کے لیے ایک دوسرے معاملے میں بھی اہم اقدام تھا۔ عدالت کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا تھا کہ یہ محض چھوٹے ملکوں اور ترقی پذیر ممالک (زیادہ تر افریقی ملکوں) کے رہنماؤں کے خلاف ہی کارروائی کرتا ہے جبکہ زیادہ طاقتور ملکوں کے خلاف تحقیقات سے گریز کرتا ہے۔
اس تناظر میں افغانستان میں ہونے والے واقعات کے سلسلے میں امریکہ کی تفتیش کرنا عدالت کا ایک اہم قدم ہے جس کا مقصد بغیر کسی خوف یا حمایت کے ان معاملات کی تحقیق کرنا ہے جو اس کے دائرے اختیار میں آتے ہیں۔ اب ہمیں دیکھنا ہے کہ یہ اس میں کتنا کامیاب ہوتی ہے۔
© The Independent