عورت آزادی مارچ کی روح رواں عصمت شاہ جہاں نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہم رائٹ ونگ سے الجھنا نہیں چاہتے، یہ ریاست کا کام ہے کہ عورت آزای مارچ کی تحریک کو تخفظ دے۔ اب پاکستان میں فیمنیسٹ تحریک جنم لے چکی ہے اور یہ جدوجہد جاری رہے گی۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح خواتین کے عالمی دن پر عورت مارچ پر پتھر برسائے گئے اُس کی عدالتی تحقیقات ہونے کی ضرورت ہے۔ عصمت شاہ جہاں نے کہا کہ عورت آزادی مارچ پر ہر طرف سے حملہ ہوا۔ انتظامیہ نے درست انتظامات نہیں کئے مذہبی جماعتوں کی جانب سے ایک حملہ تھا جب کہ سماج کی طرف سے لائے گیے لوگوں نے عورتوں کو تنگ کیا پاکستان ایک جمہوری ملک ہے یہاں ابھی شریعت نہیں آئی جب آئے گی تو دیکھا جائے گا۔
آٹھ مارچ کو خواتین آزادی مارچ میں ہونے والی بدنظمی کے بعد اسلام آباد انتظامیہ نے دو ایف آئی آر کا اندراج کیا۔ ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سے قبل دو ایف آئی آر درج ہوئی ہیں، ایک ریلی میں مشتبہ شخص کی موجودگی سے متعلق ہے جب کہ دوسری عورت مارچ میں ہنگامہ آرائی سے متعلق ہے، تاہم اُس میں پتھراؤ کا ذکر نہیں تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہنگامہ آرائی کی ایف آئی آر اسلام آباد انتظامیہ نے نوٹس لے کر درج کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ واقعے کی مختلف فوٹیجز موصول ہوئی ہیں جن کا جائزہ لے رہے ہیں تاہم پتھراؤ ہونے کی شکایت ہمارے پاس کوئی لے کر نہیں آیا۔‘
پتھراؤ اور حملے کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے عورت آزادی تحریک کی رہنما طوبیٰ سید سے پوچھا کہ وہ مارچ پر حملے شکایت کب درج کروائیں گی تو انہوں نے کہا کہ ہم شکایت درج نہیں کروائیں گے یہ انتظامیہ کا کام ہے کہ ہمیں تخفظ دے اس لیے وہ خود ایف آئی آر میں ترمیم کریں۔ جو ایف آئی آر درج کی گئی اُس سے ہم مطمئن نہیں ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عورت مارچ منتظمین کا یہ بھی کہنا تھا کہ آٹھ مارچ کو انتظامیہ کی جانب سے این او سی صرف اُن کے پاس تھا جب کہ باقی مذہبی جماعتوں کے اجتماع کے پاس این او سی نہیں تھا اور انتظامیہ نے ان کے دباؤ میں آ کر انہیں اجازت دی ہے۔ ایک ہی وقت میں اجازت دینے سے تصادم ہوا۔
طوبیٰ سید نے نے کہا کہ ’بہت منظم طریقے سے اُن غنڈوں نے مارچ کی خواتین پر حملہ کیا۔ اُس سڑک پر پتھر نہیں تھے بلکہ پتھر ساتھ لائے گئے۔ تو یہ ایک سوال ہے کہ کیا اُن کی کوئی تلاشی نہیں لی گئی؟ انہوں نے کہا دیکھنے میں یہی لگتا ہے کہ یہ سب پہلے سے پلان کیا گیا تھا۔ کیوں کہ حیا مارچ کے جو سپیکر لگے تھے اُن کا رُخ بھی عورت مارچ کی جانب تھا اور انہوں نے یہ بھی کہا کہ آؤ ان عورتوں پر لعنت بھیجیں۔ ہمارے خلاف اعلان جنگ کیا گیا۔ کیا ہم کسی کی مائیں بیٹیاں یا بہنیں نہیں ہیں؟‘
طوبیٰ سید نے مزید کہا کہ ’جب حملہ ہوا تو ہماری حفاظت کے لیے تعینات پولیس اہلکار اپنی جانیں بچا رہے تھے اور پیٹرول پمپ کے پاس گاڑی کے پیچھے چھپے تھے۔ انہوں نے کہا کہ صرف دس پولیس اہلکار تھے جو حملہ آوروں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے لیکن اب پولیس سے بھی کیا شکایت کریں وہ نوجوان چھوٹے لڑکے تھے وہ ملاؤں سے ڈر گئے تھے۔‘