اس بار عورت مارچ میں کچھ اور آوازیں شامل ہوئیں لیکن ان صداؤں کے مخالف الزامات کی ایک لمبی فہرست لہرا رہے ہیں۔ دارالحکومت اسلام آباد کی مرکزی شاہراہ پر ایک طرف ’میرا جسم میری مرضی کے نعرے‘ لگاتی باغی عورتیں اور ٹینٹ کی دوسری جانب اپنے جسموں پر حق کے دعوے کو شرک اور کفر قرار دیتیں حیا مارچ کی مقررین۔
ایک جانب بنیادی حقوق کے حصول کے لیے پدر شاہی کی دیوار کو گرانے کے لیے ایک دھکا اور دو کی للکار تو دوسری طرف ایسی بےحیا عورتوں کے لیے استغفار استغفار کی پکار۔ یہ ٹینٹ بظاہر تو اسلام آباد کی انتظامیہ نے سکیورٹی کے لیے لگایا تھا لیکن یہ بظاہر دو مختلف طبقات کے درمیان ڈیورنڈ لائن نہیں تھا بلکہ معاشرے میں خواتین کے حقوق پر منقسم رائے کا ثبوت بنا کھڑا تھا۔
یہ منظر اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھا رہا تھا کہ عورت کے استحصال اور حقوق کو مذہب اور روایت کے نام پر درست سمجھنے والے اپنے موقف پر ناصرف قائم رہیں گے بلکہ اس کے تحفظ کے لیے مخالفین کو دبانے کی کوشش بھی کریں گے۔ بظاہر سڑک کے دونوں طرف عورت کی مضبوطی کی آواز لگائی جا رہی تھی۔ حقوق کے بعض مطالبات مشترک تھے مگر سڑک کے درمیان لگا ٹینٹ وہ نظریاتی خلیج ہے جس کو پار کرنا عورت کی جیت کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ عام لوگوں کے نزدیک دونوں مارچ کے تقابل کا پہلا اور لازمی جزو دونوں جانب شریک خواتین کا حلیہ ہے۔
پہلا نظریاتی اختلاف بھی عورت کے حلیے پر تکرار سے شروع ہوتا ہے۔ اگرچہ عورت مارچ سوچ کی بنیاد پر عورت کی برابری کا مطالبہ کر رہی تھی اس مارچ میں کسی مخصوص حلیے کو کسی نظریے کے طور پر نہیں پیش کیا گیا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں عورت کے حقوق کی بحث میں عورت کا حلیہ سب سے ذیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
دہائیوں کی فرسودگی ذہنوں میں یہ بیٹھ چکی ہے کہ عورت کے ساتھ ہونے والے مظالم کی بنیادی وجہ اس کا باغی ہونا ہے اور بغاوت کی پہلی خبر اس کے حلیے سے ملتی ہے جب وہ معاشرے کے طے شدہ اصولوں کے خلاف لباس پہنتی ہے۔ یہ وہ اختلاف ہے جو دونوں جانب کی نظریاتی وابستگی کا سب سے حساس پہلو ہے۔
عورت مارچ والے کہتے ہیں کہ عورت کا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی کا لباس پہنے اور معاشرہ اسے اس کے حلیے کی بنیاد پر عزت کے بنیادی حق سے محروم نہیں کر سکتا۔ دوسری جانب روایت پسند سمجھتے ہیں کہ اگر عورت اپنا حلیہ ’مذہبی اور روایتی طبقوں کی خواہشات اور معیار‘ کے مطابق رکھے تو وہ محفوظ رہے گی۔ اگر عورت باپردہ ہو گی تو اس کے ساتھ کوئی راہ گیر بدتمیزی نہیں کرے گا نہ اسے ہراساں کیا جائے گا۔ یہ نظریہ مشاہدے میں کس حد تک کامیاب ہے اس پر بحث نہیں ہوتی لیکن یہ نظریہ پاکستان کی اکثریت میں بہت مقبول ہے۔ اسی لیے معاشرے کی اکثریت عورت کے موزوں لباس پر سب سے ذیادہ زور دیتی ہے۔
سوشل میڈیا پر عورت مارچ کی حمایتی خواتین کے حلیے پر بھی تابڑ توڑ حملے ہوئے۔ دوپٹے کے بغیر عورتیں بےحیائی کا چلتا پھرتا نمونہ ہیں اور ایسی خواتین کو حقوق مانگنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ بھی الزامات لگے کہ یہ بےحیا عورتیں ریپ کا کلچر عام کرنا چاہتی ہیں اور جنسی مادر پدر آزادی کی خواہشمند ہیں۔ سب سے بڑا الزام جو عورت مارچ کے شرکا پر لگایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ان کا مظلوم عورتوں سے کوئی تعلق نہیں یہ فحاشی پھیلانے کے ایجنڈے پر ہیں۔ اگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے خواتین کے عالمی دن پر ریلیوں کا انعقاد خواتین کے حقوق کے مطالبات کے لیے ہوتا تو یہ ریلیاں پاکستان کی عورت کے لیے ایک حوصلہ ہوتیں لیکن بدقسمتی سے حیا مارچ کے پوسٹرز، پلے کارڈز اور تقریریں سن کر محسوس ہوا کہ یہ مارچ صرف ’میرا جسم میری مرضی‘ کے نعرے کو دبانے کے لیے منعقد کیا گیا۔
حیا مارچ کے مقررین کا سارا زور یہ ثابت کرنے پر تھا کہ انسانی جسم اور اعضا پر صرف اللہ کا حق ہے حالانکہ عورت مارچ میں لگائے جانے والے اس نعرے کا مخاطب خدائے بزرگ و برتر ہرگز نہیں تھے۔ سوشل میڈیا پر بھی ایک بہت بڑی تعداد عورت مارچ کو بےحیائی پھیلانے کی سازش قرار دیتی رہی اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے منعقدہ ریلیوں کو خواتین کی اصل نمائندہ سوچ کی علامت کہا گیا۔ ان جماعتوں کی جانب سے حیا اور تکریم سے خواتین کا دن منانے کو کامیابی قرار دینا سب کا حق ہے مگر اس کامیابی کو منانے کے لیے عورت مارچ پر ہر طرح کی لعنت ملامت کی گئی۔
قرآن میں عورتوں کی عزت کا حکم ہے اور یہ حکم غیرمشروط ہے۔ قرآن میں بارہ تعالیٰ نے یہ نہیں ارشاد فرمایا کہ ان عورتوں کی عزت کرو جو برقعے میں ہوں یا باپردہ ہوں۔۔۔ قرآن تو مذہبی بنیاد پر بھی یہ حکم نہیں دیتا کہ صرف مسلمان عورتوں کی عزت کرو اور باقی کی کوئی عزت نہیں۔ ہاں پردے کی ہدایت ضرور ہے۔ اسلام انسان کی تکریم کا پرچار کرتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ عورت کو انسان سمجھا جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ سب لوگ جو عورت مارچ کو معاشرتی اقدار کے خلاف سمجھتے ہیں اور عورت کے حقوق کی آواز کو خاندانی نظام کی شکست سمجھتے ہیں کیا وہ یہ نہیں سوچتے کہ حیا اور بےحیائی مرد اور عورت دونوں کے کردار کا پیمانہ ہے۔ اگر عورت کے خلاف ہونے والے ظلم کی وجہ اس کا حلیہ ہے تو پھر تین سال کی بچی کا ریپ سچ نہیں ہو سکتا۔ یہ سوچنا کہ گھروں میں تشدد کا شکار ہونے والی ساری خواتین بےحیا ہیں یہ بھی ناانصافی ہے کیونکہ تشدد کا شکار تو وہ خواتین بھی ہوتی ہیں جو باپردہ ہوتی ہیں۔ جو نمازی اور پرہیزگار ہوتی ہیں ان پر بھی شوہر ہاتھ اٹھاتے ہیں۔
عورت کے حقوق کا نعرہ پدر سری نظام سے عورت کو وہ بنیادی آزادیاں دلانا ہیں جو مذہب نے عورت کو دی ہیں۔ عورت مارچ کو مذہب مخالف تحریک کے طور پر پیش کرنے والے اور خواتین کے حقوق پر مذہب کا کارڈ کھیلنے والے عورت کے استحصال کا خاتمہ نہیں چاہتے یا پھر وہ عورت مارچ کو ایک غیرمذہبی اور غیر اہم تحریک کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ہر صورت میں یہ تقسیم حیا مارچ کی فتح یا عورت مارچ کی شکست نہیں ہے بلکہ عورت کی خود مختاری کے خلاف ایک سازش ہے۔
ذیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ عورت مارچ پر نظریاتی تقسیم محض مذہبی گروہوں اور روشن خیالوں ترقی پسندوں کی روائتی کھینچا تانی نہیں بلکہ میڈیا، ادب، شعبہ تعلیم اور شوبز سے وابستہ لوگ تقسیم نظر آئے۔ اس بات پر تو سب اتفاق کر رہے تھے کہ عورتوں کے حقوق پر بات ہونی چاہیے لیکن یہ بات کیسے اور کن الفاظ میں ہو اس پر اتفاق نہیں تھا۔
اس صورت حال سے ایک بات تو واضح ہوتی ہے کہ پاکستانی معاشرہ روایتوں کی وزنی سل کے نیچے دبا ہے جو لوگ صدیوں سے ان روایتوں کی قید میں ہیں۔ اب انہیں اس سل کا وزن سینے کا بوجھ نہیں لگتا بلکہ وہ اسے اپنا حصہ تسلیم کر چکے ہیں۔ دوسری بات جو اس معاشرے کی بقا کے لیے خطرہ بن سکتی ہے وہ مخالف کی رائے پر اسے نفسیاتی دباؤ کا شکار کرنے کا رحجان ہے۔ مارچ میں شریک مردوں سے میڈیا کے لوگ یہ سوال کرتے بھی پائے گئے کہ اگر ان کی بہن نکاح کے بغیر کسی سے تعلق رکھے تو وہ کیا سوچیں گے؟ عورت مارچ کے نعروں کو تناظر اور مفہوم سے ہٹا کر پیش کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔
اس وقت باشعور شہریوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ کہ وہ حیا مارچ اور عورت مارچ کے درمیان لگے ٹینٹ کو گہری خلیج میں بدلنے سے پہلے یہ فیصلہ کریں کہ عورت چاہے وہ برقعے میں ہو یا جینز میں اس کے مسائل سانجھے ہیں۔ اور اسے معاشرے میں گھر میں ریاست میں اس کی عزت نفس کا اس کے حق انتخاب کا اور اس کی رائے کے اظہار کا حق چاہیے۔ برقعے والے یہ نہ سوچیں کہ جینز والی عورت جسمانی جنسی اور ذہنی تشدد کا شکار نہیں ہوتی اسی طرح ماڈرن لباس والے اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ برقعے والی عورت استحصال پر خوش ہے۔
بات کہنے کے انداز میں جو فرق ہے اس کا احترام آگے بڑھنے میں مدد دے گا۔ لیکن مذہبی بنیادوں پر عورت کے بنیادی حقوق پر معاشرے کو تقسیم کرنا سرا سرگھاٹے کا سودا ہے۔