دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس تیزی سے پھیلنے لگا ہے اور متاثرین کی تعداد روز بروز بڑھنے لگی ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے ہنگامی بنیادوں پر انتظامات کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔ پنجاب میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ کر دی گئی جبکہ دیگر صوبوں میں بھی ایسی ہی صورت حال دکھائی دیتی ہے، جہاں ہر طرح کی تقاریب پر پابندی عائد کرکے ہسپتالوں میں آئیسولیشن وارڈز بنائے جارہے ہیں۔
وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کا کہنا ہے کہ میڈیکل ایمرجنسی نافذ کرنا غیر معمولی اقدام ہے، تاہم ملک میں کرونا وائرس کے معاملے پر وزیر اعظم کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس میڈیکل ایمرجنسی سے بھی بڑھ کر ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت اس عالمی بحران کو انتہائی سنجیدگی سے لے رہی ہے اور تمام تر وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں۔
میڈیکل ایمرجنسی میں کیا ہوتا ہے؟
ڈاکٹر یاسمین راشد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ میڈیکل ایمرجنسی نافذ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تمام ہسپتالوں میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف کو کہیں جانے کی اجازت نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی چھٹی لے سکتا ہے، خاص طور پر آئیسولیشن وارڈز کے عملے کو باہر جانے یا باہر سے اندر آنے کی بھی اجازت نہیں دی جاسکتی اور وہ 24 گھنٹے ہسپتالوں میں ڈیوٹی سرانجام دینے کے پابند ہوتے ہیں جبکہ جو ڈاکٹر یا عملہ چھٹی پر ہو ان کی چھٹیاں منسوخ کر دی جاتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید بتایا کہ حکومتی سطح پر اس دوران محکمہ صحت کے حکام کو مکمل بااختیار بنا دیا جاتا ہے کہ وہ اس معاملے سے متعلق ضروری سامان، مشینری اور آلات فوری طور پر خرید سکتے ہیں اور متعلقہ ادویات یا ویکسین کی فراہمی کو مسلسل جاری رکھنا ہوتا ہے جبکہ سینٹر قائم کرنے کے لیے متعلقہ حکام کو جو جگہ بھی مناسب درکار ہو اس کی فوری دستیابی کو یقینی بنانا ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔
وزیر صحت نے بتایا: ’کرونا وائرس سے بچاؤ اور متاثرین کے علاج کے انتظامات ہنگامی بنیادوں پر کیے جارہے ہیں۔ یہ غیر معمولی وبا ہے جس میں حکومتی اقدامات سے زیادہ شہریوں کے اپنے فرائض بھی ناگریز ہیں کیوں کہ اکیلے حکومتی مشینری اس سے تنہا نہیں نمٹ سکتی، شہریوں کو بھی اپنا خیال خود رکھنا چاہیے اور جو ہدایات جاری کی جارہی ہیں ان پر عمل ضروری ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میڈیکل سہولیات تو معمول کے علاج معالجے کے لیے تھیں لیکن اس ہنگامی صورت حال میں تیاری کے ساتھ ساتھ دیگر مریضوں کا علاج بھی کیا جا رہا ہے۔ صحت کے حکام اور عملے پر دوہری ذمہ داری آن پڑی ہے لیکن ہم اس میں سرخرو ہوں گے۔‘
میڈیکل ایمرجنسی اور ہنگامی سہولیات
اس حوالے سے ڈائریکٹر جنرل محکمہ صحت پنجاب ہارون جہانگیر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’میڈیکل ایمرجنسی کے پیش نظر جن ہسپتالوں میں آئیسولیشن وارڈز بنائے گئے ہیں وہاں مکمل طبی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جارہی ہے، تاہم ٹیسٹ کے لیے مشتبہ افراد کے نمونے لے کر کرونا وائرس کی تشخیص کے لیے اسلام آباد یا لاہور لیبارٹری کو بھجوائے جارہے ہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کرونا کے شبہ میں قرنطینہ میں رکھے گئے افراد اور جن میں وائرس کی تشخیص ہوئی ہو، ان کے علاج کی سہولیات مکمل ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ’ابھی تک مشتبہ مریضوں کی جتنی تعداد ہے اس کے مطابق سہولیات موجود ہیں لیکن ہم ممکنہ تعداد میں اضافے کے پیش نظر سینیٹائزرز، ماسک اور کِٹس منگوا رہے ہیں۔ میڈیکل ایمرجنسی کی وجہ سے ڈاکٹر اور عملہ پوری طرح الرٹ ہے اور 24 گھنٹے نگرانی جاری ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ابھی تک قرنطینہ سینٹر صرف ڈیرہ غازی خان میں مکمل تیار ہوا ہے جبکہ ملتان اور بہاولپور میں ابھی تک پوری طرح تیار نہیں لیکن جلد تیار ہوجائیں گے، جس سے قبل از وقت تیاری اچھی ہو جائے گی۔