پہلی بار جب ڈاکٹر فاروق رشید فاروقی سے ایک محفل میں ملاقات ہوئی تو اندازاہ نہیں تھا یہ مسکراتے باریش بزرگ کئی برسوں سے پاکستان کی خاموشی سے خدمت کر رہے ہیں۔ خاص طور پر اس زمانے میں جب کوئی بھی اپنی ایک چھوٹی سی بات کی بھی سوشل میڈیا پر تشہیر سے نہیں کتراتا۔
چوراسی سالہ ڈاکٹر فاروق رشید فاروقی جن کا سعودی عرب کے کامیاب ترین معالجین میں شمار ہوتا ہے کہتے ہیں: ’میں جو بھی کر رہا ہوں اپنے پاکستان، اپنے لوگوں اور سب سے بڑھ کر اللہ کے لیے کر رہا ہوں۔ اللہ نیتوں کا حال جانتا ہے۔ مجھے ضرورت نہیں دنیا کو بتانے کی۔‘
ان کے ہاتھ کی شفا کی شہرت جدہ میں ہر عام و خاص میں ہے۔ لیکن بہت کم لوگ یہ جانتے ہوں گے کہ اس کامیاب شخص کا مادر وطن پاکستان ہے اور ان کے خاندان اور آباو اجداد کا تعلق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے ہے۔
ڈاکٹر فاروق رشید فاروقی اور پاکستان کڈنی سنٹر کے بارے میں مجھے احمد سلطان سے معلوم ہوا۔ احمد کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے جو کراچی میں ایک مکان میں مالی کی نوکری کرتے ہیں۔ احمد کے والد کو 10 سال سے گردے کا مرض لاحق ہے۔ ’میں اور میرے گھر والے والد کی بیماری اور ان کی تکلیف دیکھ کر خون کے آنسو روتے تھے۔ سرکاری ہسپتال میں نہ گنجائش ہے نہ سہولت۔‘
احمد کو ان کے محلے والوں نے ایک بزرگ سعودی ٖڈاکٹر کا بتایا جو ایبٹ آباد کے علاقے میں غریبوں کے لیے گردوں کا ہسپتال کھول رہے ہیں۔
’مجھے یقین نہ آیا۔ بھائی کو کہا دیکھ کر آو۔ جب اس نے تصدیق کی تب بھی بات دل کو نہ لگی کہ کیوں ایک سعودی ڈاکٹر ہم غریبوں کا مسیحا بنےگا۔ مگر جب خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تب اللہ کے بھیجے ہوئے اس فرشتے پر یقین آیا۔‘
1960 کی دہائی میں نوجوان ڈاکٹر فاروقی کو جدہ کے ہسپتال میں نوکری کی پیشکش آئی۔ وہ اس وقت مظفر آباد کے ایک ہسپتال میں نوکری کر رہے تھے۔ اچھے مستقبل کی جستجو میں یہ 25 سالہ ڈاکٹر جب جدہ آیا تو اپنی قابلیت اور محنت سے سعودی عوام کے دل میں گھر کر لیا۔ انہیں چند برس میں ہی سعودی شہریت سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر فاروقی نے کہا: ’سعودی عرب میرا گھر ہے۔ جو عزت محبت مجھ کو وہاں ملی ہے، میرے لیے وہی سب کچھ ہے۔ میں ان خوش قسمت لوگوں میں سے ہوں جن کو اللہ نے دو دو گھروں سے نوازا ہے۔ اس کے بدلے میں اللہ کی راہ میں جو بھی کروں کم ہے۔‘
انہیں اس بات کا بھی احساس ہے کہ پاکستان ان کی جائے پیدائش ہے۔
’اسی زمین پر میں نے پرورش پائی، تعلیم حاصل کی۔ میرے والدین اور بزرگوں کی آخری آرام گاہ یہیں ہے۔ لہذا جب اللہ نے توفیق دی کہ ناداروں کے لیے کچھ کر سکوں تو میں نے اپنے رفقا کی مدد سے پاکستان میں پاکستان کڈنی سنٹر قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔
مگر گردوں کا ہسپتال ہی کیوں؟ ’اس وقت پاکستان میں سترہ ملین سے زائد افراد گردوں کی مختلف بیماری میں گھرے ہیں۔ بس آپ یہ سمجھو کہ ہر سات میں سے ایک پاکستانی کو کسی نہ کسی طرح کی گردے کی بیماری ہے۔ اور ان کو اس وقت پتہ چلتا ہے جب یہ بات سر سے اوپر گذر جاتی ہے۔ پھر علاج کا خرچہ اور تکلیف بھی بڑھ جاتی ہے۔‘
’بحیثیت ڈاکٹر، مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ تھا۔ جدہ میں بھی میری ملاقات ایسے ہزاروں پاکستانیوں سے ہوتی تھی جو مختلف قسم کی گردے کی بیماریوں میں مبتلا تھے۔ مگر علاج کے خرچے کی وجہ سے وہ اپنی جان کو خطرے میں ڈال دیتے تھے۔ لہذا 2015 میں نے، میرے دوست احباب، رفقا کی مدد سے یہ ہسپتال قائم کیا۔‘
احمد سے جب میں نے پوچھا کہ ان کی ملاقات کبھی ہوئی ڈاکٹر فاروقی سے؟ تو انہوں نے کہا: ’میں ان کو دور سے دیکھتا ہوں۔ ان کی شخصیت میں اتنی طاقت ہے کہ ہمت ہی نہیں ہوئی کہ آگے بڑھ کر بات کر سکوں۔ ایک مرتبہ، ہمت کر کے، آگے بڑھ کر سلام کیا۔ انہوں نے مسکرا کر جواب دیا اور میرے سر پر ہاتھ پھیرا۔ بس اس ایک مسکراہٹ کا اتنا جادو تھا کہ یہ بھی نہ کہہ سکا کہ آپ نے میرے ابو کو دوسری زندگی دے کر ہم پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ آپ کا بہت شکریہ۔‘
چوبیس سالہ طالب علم عثمان غنی اپنے ڈائیلاسس کے لیے پاکستان کڈنی سینٹر پانچ سال سے آ رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’میرے اور میرے خاندان کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم بڑے شہروں میں جا کر علاج کروا سکیں۔ حکومتی سہولیات نہ ہونے جیسی ہیں۔ ایسے میں یہ ہسپتال مجھ جیسے ہزاروں لوگوں کے لیے جینے کی واحد امید ہے۔ مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ اتنا بڑا آدمی کیسے اور کیوں اتنی اچھی زندگی جدہ میں چھوڑ کر یہاں یہ سب کر رہا ہے؟ یہ دنیا انہی نیک لوگوں کی وجہ سے قائم ہے۔‘
عثمان بھی کبھی ڈاکٹر فاروقی سے نہیں ملے۔ ’جب وہ ہسپتال آتے ہیں اور میں وارڈ میں ہوتا ہوں تو دور سے دیکھ کر ان کو دعائیں دیتا ہوں۔‘
ڈاکٹر فاروقی چھ ماہ جدہ اور چھ ماہ لاہور میں گزارتے ہیں۔ ان سے پوچھا کہ ان کے گھر والے پریشان نہیں ہوتے کہ وہ اس عمر میں بھی اتنی محنت کر رہے ہیں؟ ڈاکٹر صاحب ہنسے، کہنے لگے ’بہت ناراض ہوتے ہیں مگر میں نے کہہ دیا ہے کہ پہلے میں اپنے اور اپنے گھر والوں کے لیے سب کر رہا تھا اب مجھے میری قوم کے لیے کرنے دو۔ اللہ نے جب تک ہمت دی ہے مجھے اس ملک کی خدمت کرنی ہے جہاں میرے والدین اور میرے آباو اجداد کی آخری آرام گاہ ہے۔ مجھے اس مٹی کا قرض چکانا ہے۔‘
جب میں ڈاکٹر فاروقی سے سوال کیا کہ وہ کس طرح ابھی بھی اتنی جانفشانی سے کام کر رہے ہیں، تو ان کا سادہ سا جواب تھا ’اللہ کراتا ہے۔‘
مگر آپ کا دل نہیں چاہتا کہ آپ کا نام اور شہرت ہو؟ وہ پھر ہنسے: ’کس لیے؟ اللہ کو راضی کرنا ہے، س کے بندوں کی خدمت کر کے۔ وہ راضی تو سب راضی!‘