پاکستان میں کرونا وائرس کے متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کی جانب سے ضروری اقدامات کے باوجود اس وبا کے پھیلاؤ میں کمی واقع نہیں ہورہی اور علاج کرنے والے ڈاکٹروں اور پولیس اہلکاروں کے بعد کوریج کرنے والے صحافی بھی اس وائرس کی زد میں آنے لگے ہیں۔
بیشتر میڈیا اداروں کی جانب سے ملازمین کے لیے حفاظتی اقدامات کے باوجود پاکستان کے تین نیوز چینلز کے نمائندے لاہور، وزیر آباد اور مظفر گڑھ میں کرونا سے متاثر ہوئے ہیں، جنہیں ٹیسٹوں کے بعد تشخیص ہونے پر آئیسولیشن وارڈز میں منتقل کردیا گیا ہے جبکہ 21 صحافیوں میں کرونا وائرس کی موجودگی کا شبہ ہے اور ان کے ٹیسٹ کی رپورٹس آنا باقی ہے۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) کے جنرل سیکرٹری رانا عظیم نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب تک تین صحافیوں میں کرونا وائرس کی تصدیق ہوچکی ہے جبکہ 21 صحافی ایسے ہیں جن میں شبہ ہے کہ وہ کرونا سے متاثر ہوسکتے ہیں، تاہم ابھی تک ان میں وائرس کی موجودگی یا غیر موجودگی کی تصدیق نہیں ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ بعض اداروں نے دفتری عملے کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دی ہے لیکن اخبارات کے پیج تیار کرنے والے اور الیکٹرانک میڈیا میں لائیو بیپر دینے والے صحافیوں کے لیے ڈیوٹی لازم ہے، لہذا انہیں کرونا وائرس سے بچاؤ کی بہترین کِٹس اور سینیٹائزر کی فراہمی کے ساتھ ساتھ صبح شام ان کا ٹمپریچر بھی چیک ہونا چاہیے۔
رانا عظیم نے مزید بتایا کہ صحافیوں کو اس وبا سے بچانے کے لیے ضروری اقدامات کی غرض سے وزیر اعظم اور چیف جسٹس کو خط لکھ دیا گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن ( پی آر اے ) اسلام آباد کے صدر بہزاد سلیمی کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا زلزلہ اور کرونا جیسی کوئی قدرتی آفت ہو، لوگوں کو بروقت اور درست معلومات کی فراہمی کے لیے صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو فرنٹ لائن سے اپنے پیشہ وارانہ فرائض ادا کرنا پڑتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ 'دفتری دباؤ اور بہتر سے بہتر کام کے جنون کے باعث صحافی بہت سی احتیاطی تدابیر بھی اختیار نہیں کرپا رہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کی صورت حال میں جہاں لوگوں کو گھروں میں بیٹھنے کی تلقین کی جارہی ہے وہیں ہمارے ساتھی رپورٹرز اور کیمرہ مین ہسپتالوں اور مختلف مقامات سے براہ راست رپورٹنگ کر رہے ہیں لیکن ان کے پاس این 95 ماسک، دستانے اور دیگر ضروری حفاظتی انتظامات نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ صحافی بھی کرونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔'
بہزاد سلیمی نے مزید کہا کہ اس صورت حال میں حکومت اور میڈیا مالکان پر صحافیوں کے تحفظ کی ذمہ داری یکساں طور پر عائد ہوتی ہے۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ 'افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ آج بھی بیشتر صحافیوں کو میڈیکل اور لائف انشورنس میسر نہیں۔ کیمرے کی تو انشورنس ہے لیکن کیمرہ مین کی نہیں۔'
بہزاد سلیمی کے مطابق: 'پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن پارلیمنٹ اور حکومت پر دباؤ کے ذریعے ایسی قانون سازی کے لیے کوشاں ہے جس سے صحافیوں کے جانی اور معاشی تحفظ کا مستقل حل نکل سکے، لیکن ساتھ ہی صحافی دوستوں سے بھی ضروری احتیاطی تدابیر کرنے کی درخواست ہے۔ وہ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ ایکسکلوژو خبر اور ملازمت دوبارہ مل جائے گی لیکن زندگی دوبارہ نہیں ملے گی۔'
اس حوالے سے الیکٹرانک میڈیا ایسویسی ایشن کے صدر آصف بٹ نے کہا کہ صحافی کو اس وبا سے بچانے کے لیے ایمرا کی جانب سے ممبران کو حفاظتی اشیا فراہم کی جارہی ہیں تاکہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنے والے بھائیوں کو اس وائرس سے بچایا جاسکے۔
اداروں کی جانب سے حفاظتی اقدامات
پاکستانی صحافتی ادارے 'سٹی 42' کے گروپ ایڈیٹر نوید چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ 'کرونا وائرس کی وبا دنیا بھر میں پھیل رہی ہے، اس پر قابو پانے میں تو ابھی تک کوئی کامیابی نہیں ہوئی لیکن اس سے بچنے کا واحد حل حفاظتی اقدامات ہیں کیونکہ اب تو خبریں دینے والے خود خبر بننے لگے ہیں۔'
انہوں نے مزید کہا کہ اس حوالے سے صحافتی اداروں کی جانب سے جو حفاظتی اقدامات کیے جارہے ہیں وہ ناکافی ہیں لیکن صحافتی ذمہ داریاں بھی ناگزیر ہیں اور ایسے حالات میں عوام اور حکام کو باخبر رکھنا انسانی خدمت ہے۔ بعض اداروں نے تو ضروری سٹاف کے علاوہ سب کو گھروں سے کام کی اجازت دے دی جبکہ بیشتر میں ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا جو کہ خطرناک ثابت ہوسکتاہے۔
دوسری جانب 'سچ' نیوز کے ڈائریکٹر نیوز ندیم رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کرونا وائرس جیسی وبا اس سے پہلے کبھی نہیں آئی، اس لیے میڈیا تو کیا نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) اور محکمہ صحت جیسے اداروں کو بھی اقدامات میں دشواری ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'عام طور پر جب بھی کوئی وبا یا بڑا بحران آتا ہے تو میڈیا کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں، لہذا اس وبا کے آنے پر بھی صحافی یہی سمجھ رہے ہیں کہ انہیں بڑھ چڑھ کر خبریں نشر یا پرنٹ کرنی ہیں لیکن اس بار حالات مختلف ہیں اور اس سے بچاؤ کا واحد حل احتیاطی تدابیر پر عمل کرناہے۔'
ندیم رضا کے مطابق: 'اداروں کی جانب سے تو محدود وسائل کے باوجود عملے کو محفوظ رکھنے کی کوششیں جاری ہیں لیکن صحافیوں اور ڈی ایس این جیز کے سٹاف کو خود بھی چاہیے کہ وہ حفاظتی کٹ استعمال کریں اور لوگوں کے ساتھ ملنے سے اجتناب کریں۔'