پاکستان میں کرونا (کورونا) نے کئی تلخ سچائیوں کو ایک ساتھ ہمارے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان میں ہسپتال کم، وسائل کم، صلاحیت کم، نیت کم اور آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے میں اگر ہم اس وبا سے کامیابی سے نمٹ لیں تو یہ معجزہ ہو گا۔
کیا ہماری روش اور حالات معجزوں کا حق رکھتے ہیں؟ دنیا بھر کے انسانوں کی زندگی پر کرونا کے اثرات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ بڑے بڑے کاروبار بند ہونے کے خطرے سے دو چار ہیں۔ اس کے نتیجے میں کروڑوں لوگوں کے لیے اپنے گھر کو چلانا ممکن نہیں رہے گا۔
مشکل یہ ہے کہ اگر کرونا سے بچنا ہے تو سب کو گھر میں رہنا پڑے گا۔ جن کی جیب بھری ہے وہ اپنا گھر اشیائے خوردونوش سے بھر رہے ہیں۔ پیٹ کی فکر سے آزاد لوگ سوشل میڈیا پر اپنے نت نئے شوق دکھا کر لوگوں کو گھروں میں رہنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔ بعض صاحب ذوق کتابوں اور فلموں کی فہرست سوشل میڈیا پر شیئر کرکے کہتے ہیں کہ کرونا سے بچیں گھر میں رہیں۔ دنیا کی بہترین کتابیں پڑھیں اور سپر ہٹ فلمیں دیکھیں۔ تھوڑے سے حقیقت پسند اس طرح کی تجاویز میں رومانوی رنگ بھی بھر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فیملی کو وقت دیں۔ وہ باتیں جو آپ مصروفیت کی وجہ سے کبھی اپنی فیملی سے کر نہیں پائے کرونا سے بچنے کے ساتھ ساتھ وہ باتیں کرنے کے موقع سے بھی فائدہ اٹھائیں۔
البتہ پاکستان کا غریب ترین طبقہ اس طرح کی سوچ کی عیاشی سے محروم ہے۔ ان کے سامنے کرونا کے ساتھ ساتھ غربت اپنے پھن پھیلائے کھڑی ہے۔ سب کچھ بند ہو جائے گا کی آوازیں ان کی سانس بھی بند کر رہی ہیں۔ اگر یہ کام کاج پر نہ جائیں تو گھر والے کھائیں گے کیا؟ اور اگر یہ باہر جائیں تو وہ خود اور ان کے گھر والے بھی وائرس کے خطرے سے دو چار ہو سکتے ہیں۔
ان غریبوں کو کیا مشورہ دیں؟ اس وقت ہائی جین اور احتیاطی تدابیر کے لیے جو آگاہی مہم چل رہی ہے پاکستان کا متوسط طبقہ تو کسی نہ کسی طرح اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے گا لیکن وہ کروڑوں لوگ جو دو وقت کا کھانا بھی مشکل سے کھاتے ہیں، جن کی زندگی بوسیدہ مکانات اور کچرے کی کنڈیوں کے ساتھ جڑی ہیں وہ یہ سب ہائی جین کا خیال کیسے رکھیں گے؟
کرونا سے دنیا کی معیشت سنگین خطرات سے دوچار ہے۔ پاکستان کی معاشی کشتی تو ویسے ہی عام حالات میں بھی بھنور کے بیچ ہچکولے کھاتی رہتی ہے۔
کرونا سے لڑنے کے لیے اب تک دنیا کے پاس بہت کم حل ہیں۔ ان میں ذیادہ موثر سمجھا جانے والا حل سماجی رابطوں میں زیادہ سے زیادہ کمی کرنا ہے۔ پاکستان میں بھی اس حوالے سے ہر سطح پر لوگوں کو اس کے لیے تیار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ لیکن جو سوال اس وقت سب کو پریشان کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ کیا پاکستان کے معاشی حالات کسی قسم کا جزوی یا مکمل لاک ڈاؤن کا بوجھ اٹھانے کے لائق ہیں؟ اس سوال کا جواب کسی بھی حال میں ہاں نہیں ہو سکتا۔
پاکستان عام حالات میں بھی مہنگائی اور غربت سے لڑنے میں ناکام ہے ایسے میں کرونا سے ممکنہ خطرات سے مقابلہ کرنے کے لیے جن وسائل کی ضرورت ہے وہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ زیادہ بڑا چیلنج عام پاکستانی کی معاشی صورت حال ہے جو اسے اس حد تک محدود رہنے کی اجازت نہیں دیتی جو کرونا سے بچائے۔
بدقسمتی سے بنی نوع انسان کی ترقی ایسے انداز میں ہوئی کہ انسان کی 95 فیصد صلاحیتیں صرف پیسہ کمانے اور خرچ کرنے تک محدود ہو گئیں۔ سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو مجبور کیا کہ وہ اپنی خوشی اور خواہشات کو پیسے کے ساتھ مشروط کر لے۔ دولت کی غیرمساوی تقسیم سے ایسا سوشل آرڈر بنا جس میں اکثریت کی زندگی پیٹ کا دوزخ ٹھنڈا کرنے کی دوڑ میں بھاگتے ہانپتے گزر جاتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان کی اکثریت اسی دوڑ میں شامل ہے۔ المناک امر یہ ہے کہ یہ دوڑ زندگی سے لمبی ہے اور اس میں ہار جیت کا فیصلہ انسان کے مرنے کے بعد بھی مشکل سے ہی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ جن کی صبح شام اسی دوڑ کے لیے خود کو چابک مارنے میں گزرے ان پر کرونا جیسی آفت بھی آ جائے تو وہ کیا کریں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کرونا سے بچاؤ کی تدبیر بتانے والے ایسے گھروں کے لیے کچھ بھی تجویز کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر کمانے والا باہر نہ جائے تو کھانے والے بھوک سے مر جائیں گے۔ مختلف تنظیموں اور جماعتوں کے علاوہ مختلف حکومتوں نے بھی افورڈ نہ کر سکنے والے افراد میں جراثیم کش سینی ٹائزرز اور صابن تقسیم کیے۔ مفت صابن پہنچانا کار خیر ہے لیکن ایک دو بار صابن اور جراثیم کش سینی ٹائزرز سے یہ گھر کرونا سے بچ بھی گئے تو غربت کے وائرس سے نہیں بچ سکیں گے۔ وہ لوگ جو اپنا گھر تین تین ماہ کے راشن سے بھر رہے ہیں وہ ان خالی آنکھوں میں حسرت لیے پھرنے والوں کی کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ کیا کرونا جیسی آفتیں بھی انسان دوستی اور احساس کے رشتے استوار کرنے میں ناکام ہو جائیں گی؟
عالمی سطح پر ماہرین کا خیال ہے کہ کرونا سے دنیا بدل جائے گی۔ بھوک اور افلاس بڑھنے کا خطرہ ہے۔ معاشی بدحالی بدانتظامی دنیا کے سب مسائل کی جڑ ہے۔ نفسیاتی مسائل سے لے کر سماجی اقدار کے انحطاط کی جڑ کہیں نا کہیں معاشی بدحالی سے جڑی ہے۔ پاکستان کے تقریباً چھ کروڑ انسان خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ غریب بڑھتے جا رہے ہیں وسائل گھٹتے جا رہے ہیں۔ کرونا سے وہ تلخ حقائق پھر سے سامنے آ گئے ہیں، جن پر کسی نہ کسی طرح پردہ ڈال کے رکھا جاتا ہے۔
پاکستان میں ہر معاملے کی طرح صحت کے مسائل پر بھی آگاہی نہ ہونا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ آج ہر سطح پر ہاتھ دھونے صفائی رکھنے کی ضرورت سمجھائی جا رہی ہے۔ باشعور لوگ تو اس پر عمل کر رہے ہیں کچھ اس پر یقین نہ ہونے کے باوجود ڈر سے یہ کر رہے ہیں۔
معاشروں کی تربیت امن کے زمانے میں ہوتی ہے تاکہ جب کوئی بحران آئے تو وہ اس کے لیے تیار ہوں۔ بحرانوں میں فائر فائٹنگ تو ہو سکتی ہے مگر معاشروں کی تربیت نہیں ہو سکتی۔ آج ہم چار نسلوں کو ہاتھ دھونے، خود کو اور ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لیے زور لگا رہے ہیں۔ اس سے اللہ کرے کہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں لیکن ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس معاشرے کے رہن سہن اور اقدار کے حوالے سے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے چاہے کرونا ہو یا نہ ہو۔
سماجی ذمہ داریوں کا احساس انصاف کے معاشروں میں عام ہوتا ہے ۔ پاکستان کو ایک ایسے صحت مند معاشرے میں بدلنے کے لیے کرونا نے سوچنے کے لیے ایک موقع دیا ہے کاش ہم اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔