پاکستان تحریک انصاف کے رکن کی حیثیت سے مجھے عمران خان کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع ملا۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ پارٹی کو جب بھی بحران کا سامنا کرنا پڑا تو خان صاحب اہم فیصلوں کو اس وقت تک ٹالتے رہے جب تک بحران انتہائی گھمبیر صورت اختیار نہیں کر لیتا۔ پھر ہاتھ پاؤں پھولنے کے بعد ایسے فیصلے کیے جن سے مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کر گیا۔
حکومت میں آنے کے بعد بھی یہی رویہ برقرار رہا۔ کشمیر، آئی ایم ایف پیکج اور اب کرونا کسی موقعے پر بھی انہوں نے وقت پر فیصلے نہیں کیے۔ اب لاک ڈاؤن کو ہی لے لیں۔ میں کئی دنوں تک حکومت کو سمجھاتا رہا کہ اس کا فیصلہ صوبائی وزرائے اعلیٰ محمود خان اور عثمان بزدار کے ذمہ لگائیں لیکن یہ سب ایک دوسرے کی طرف دیکھتے رہے۔
وزیر اعظم سے ملک چل نہیں رہا مگر رعونیت کا یہ حال ہے کہ جو پارٹی سربراہان کا اجلاس خود طلب کیا تھا اس میں کسی کی بات سنے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔
حکومت ہی نہیں حزب اختلاف کا رویہ بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں۔ ایسا لگتا ہے پاکستان میں چھوٹے قد کے بڑے لیڈروں کی بہتات ہے۔ اب پارٹی رہنماؤں کی میٹنگ کو ہی لیں۔
ان تمام کی انا اتنی بڑی ہے کہ کرونا کے مسئلے پر بھی ان میں اتحاد اور اتفاق پیدا نہیں ہو سکا۔ ان کی آپس کی لڑائی کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام کا تمام سیاست دانوں پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔
کرونا وبا کے بحران نے ایک دفعہ پھر واضع کر دیا ہے کہ موجودہ جمہوریہ عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتی اوراس کی ساخت کو بدلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ صوبوں اور مرکز کے درمیان رابطے کے تمام آئینی ادارے مکمل ناکام ہیں۔ پارلیمان کو تمام پارٹیوں نے کبھی مقتدر نہیں بنایا اور ایک دفعہ پھر اسے مکمل نظر انداز کر دیا گیا۔
نیب کی طرح نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) بھی ایک ناکام اور غیر فعال ادارہ ہے۔ جس طرح نیب کرپشن پر قابو پانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اسی طرح این ڈی ایم اے بھی قدرتی آفات اور وباؤں سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ نیب کو بند کر دینا چاہیے اور این ڈی ایم اے کو دوبارہ منظم کرنا چاہیے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلدیاتی اداروں کی کمی بھی شدت سے محسوس کی گئی جس کی ذمہ دار تمام سیاسی پارٹیاں ہیں جو اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے بلدیاتی نظام نہیں لانا چاہتیں۔
حکومت نے کرونا وبا کے نتیجے میں معاشی بحران سے نمٹنے کے لیے پیکج کا اعلان کیا ہے مگر اسے مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ حزب اختلاف خرچوں کا تو مطالبہ کر رہی ہے لیکن اس کے لیے پیسہ کہاں سے آئے گا اس کے بارے میں حکومت کو کوئی تجویز نہیں دے رہی۔
وزیر خزانہ تو آئی ایم ایف کے دیے ہوئے ہیں اس لیے ان کا پہلا ردعمل یہ ہے کہ مزید قرضہ لے لیں۔ مزید قرضوں کا بوجھ ڈالنا مسئلے کا حل نہیں۔ ہماری نئی جمہوریہ کے حمایتی ماہرین اقتصادیات سے مشورے کے بعد ہم چند تجاویز حکومت کو دینا چاہتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ حزب اختلاف بھی اس کی حمایت کرے گی۔
سب سے پہلے یہ کہ پارلیمان کو فوری طور پر ایک متفقہ قرار داد پاس کرنی چاہیے کہ قدرتی آفات کی شق استعمال کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے پیکج پر نظرثانی ہونی چاہیے۔ موجودہ حالات میں کسی بھی ملک کے لیے قرضوں کی واپسی ممکن نہیں اس لیے ادائیگی کی مدت میں پانچ سال تک توسیع کی جائے تاکہ موجودہ قرضوں کی قسطوں میں بجٹ سے کم رقم دی جا سکے اور کیش فلُو بہتر ہو سکے۔
امریکہ کو یہ بات سمجھنا چاہیے کہ اگر اس وقت انہوں نے پاکستان کی مدد نہیں کی اور آئی ایم ایف بورڈ میٹنگ میں اپنا ووٹ ہمارے حق میں نہیں دیا تو یہ قوم اس بات کو کبھی نہیں بھولے گی۔ چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سے بھی یہی درخواست کرنی چاہیے۔
چین پہلے ہی کہہ چکا ہے وہ پاکستان کی ہر ممکن مدد کرے گا۔ امریکہ پاکستان کو ایران سے تیل لینے پر بھی استثنا دے جس سے وہ بھی اس وبا سے نمٹ سکیں گے۔ ان تمام اقدامات سے ہمارے قرض کی مد میں خرچہ تین ہزار ارب سالانہ سے کم ہو سکتا ہے جسے خزانہ پر بوجھ ڈالے بغیر معاشی پیکج پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
جن لوگوں نے پچھلے تین سال میں ایمنسٹی سکیموں سے فائدہ اٹھایا ہے مگر اس کے بعد ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کیے ان پر جرمانہ لگایا جائے اور ان کے اثاثے منجمد کیے جائیں۔
حکومت ہمیشہ بڑے کاروباری اداروں کے لیے پیکج بناتی ہے لیکن تنخواہ دار طبقہ محروم رہتا ہے جبکہ سب سے زیادہ انکم ٹیکس یہی لوگ دیتے ہیں۔ چھ لاکھ روپے تک تنخواہ لینے والوں کا فوری طور پر انکم ٹیکس معاف کیا جائے اور 12 لاکھ تک تنخواہ لینے والوں کے ٹیکس میں فوری پانچ فیصد کمی کی جائے۔
جی ایس ٹی کا بوجھ سب سے زیادہ عوام اٹھاتی ہے۔ جی ایس ٹی میں فوراً کمی کر کے اسے %12.5 سطح پر لایا جائے۔ بجلی اور گیس کے بلوں کی ڈسکاؤنٹ ٹیرف یونٹ کی حد کو ڈیڑھ گنا بڑھایا جائے تاکہ متوسط طبقے کے صارفین کے بل برداشت کے قابل ہوں۔
تیل کی قیمت میں کمی خوش آئند ہے مگر اس میں مزید کمی کی ضرورت ہے اس لیے کہ دنیا میں تیل کی قیمت کافی کم ہوئی ہے۔ یوٹیلٹی سٹور آٹا، چینی اور گھی کی قیمتوں میں کم از کم %25 کمی کریں اور یہ کم قیمتیں ان لوگوں سے لی جائیں جو انکم ٹیکس دیتے ہوں، 30 ہزار روپے ماہانہ سے کم آمدن ہو یا بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے رکن ہوں۔
سٹیٹ بینک نے شرع سود میں کمی کی ہے، جو اچھا اقدام ہے۔ اس شرح میں بہت تیزی سے تبدیلی بھی خرابی کا باعث بن سکتی ہے مگر امید ہے کہ اسے جلد ٪10 سے نیچے لایا جائے گا۔ کنسٹرکشن صنعت کے لیے جو پیکج تیار کیا جائے وہ اس طرح کا ہو کہ اس صنعت سے وابسطہ چھوٹے کاروباری حضرات کو زیادہ فائدہ پہنچے۔
صوبائی حکومتوں کو بھی چاہیے کہ وہ تمام بوجھ مرکزی حکومت پر نہ ڈالیں اور خاص طور پر مزدوروں کی تنخواہوں کے لیے چھوٹے کاروباری لوگوں کے لیے مراعات کا اعلان کریں۔
ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کسی بھی بحران میں سارا بوجھ حکومت نہیں اٹھا سکتی۔ مالدار اور مخیر حضرات کو بھی اس کام میں حصہ لینا چاہیے۔ ہم سب کو مل کر اس مشکل وقت سے مقابلہ کرنا ہوگا۔