میں نے جنوری 2017 میں فیصلہ کیا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن کی حیثیت سے عمران خان اور ان کی مرکزی کمیٹی کو کسی قسم کا بھی مشورہ دینا بھینس کے آگے بین بجانا ہے۔
ایک آخری کوشش کے طور پر فروری میں بنی گالہ کے سامنے ایک پریس کانفرنس کی تاکہ اپنی بات پارٹی کارکنان تک پہنچا سکوں۔ مشورہ نہ دینے کے فیصلے کی دو وجوہات تھیں۔ پہلی یہ کہ خان صاحب کا رویہ ماضی میں اور آج بھی ہے کہ انہیں کسی مشورے کی ضرورت نہیں، جب کسی کو مشوروں کی ضرورت ہی نہ ہو تو اسے کوئی مشورہ دینا اپنی عزت گنوانے کے مترادف ہے۔
اسی لیے میں نے اور کئی دیگر لوگوں نے یہی فیصلہ کیا کہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ اس کے بعد آج تک میں نے خان صاحب کو کوئی مشورہ نہیں بھیجا۔ ان کے غیرسنجیدہ اور کسی گہرائی سے عاری فیصلوں کی وجہ سے اس قوم نے بہت نقصان اٹھایا ہے اور لگتا ہے مزید نقصان بھی ہو گا۔
دوسری وجہ مشورہ نہ دینے کی یہ تھی کہ مشورہ لینے والے کو اس قابل بھی ہونا چاہیے کہ وہ بات کو سمجھ اور اس پر عمل بھی کر سکے۔ یقیناً کسی بھی سیاسی رہنما کے گرد مشورہ دینے والوں کا رش ہوتا ہے اور رہنما کو یہ فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ کس مشورہ پر عمل کرنا ہے اور کس بات کو مسترد کرنا ہے۔
اگر کوئی 10 مشورے دے تو یہ ممکن نہیں کہ ساری باتیں مانی جائیں لیکن اگر دس کے دس مشورے مسترد کر کے فیصلے ایسے کیے جائیں جن سے پارٹی اور ملک کو نقصان ہو تو یہ صاف ظاہر ہے کہ سیاست دان میں فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں۔
عمران خان میں صحیح اور بروقت فیصلے کرنے کی صلاحیت نہیں اور پچھلے دو سالوں کی کارکردگی بھی اسی بات کی تصدیق کر رہی ہے۔ اس سے ہمارے مسائل مسلسل بڑھے ہیں۔ سلیکٹرز کو بھی اب اس بات کا اندازہ ہو چکا ہے کہ ان کے مشورے خان کی سمجھ سے باہر ہیں۔ اسی لیے انہوں نے بھی فیصلے بظاہر اپنے ہاتھوں میں لے لیے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
صرف عمران خان ہی نہیں ہمارے دیگر رہنماؤں کی تاریخ بھی غلط فیصلوں سے بھری پڑی ہے۔ نواز شریف اور بے نظیر بھٹو بھی کئی مرتبہ تسلیم کر چکے ہیں کہ انہوں نے بہت سی سیاسی غلطیاں کیں جن کا نقصان نہ صرف انہیں ہوا بلکہ ملک کو بھی نقصان اٹھانا پڑا۔ اسی لیے مجھے شکوہ صرف عمران خان سے نہیں بلکہ ان کے اردگرد موجود لوگوں سے بھی ہے جنہوں نے ہمت نہیں کی کہ وہ ان غلط فیصلوں کو روکیں۔
اسد عمر، عارف علوی، فردوس نقوی، سیف اللہ نیازی، اعجاز چوہدری اور چوہدری سرور وہ لوگ ہیں جو مجھے اجلاسوں میں ذاتی طور پر بتا چکے ہیں کہ وہ خان کے فیصلوں سے متفق نہیں لیکن اس کے باوجود خان صاحب کے سامنے ہاں میں ہاں ملاتے رہے اور کھڑے نہ ہوئے۔ چلیں اگر اس وقت عہدوں کی خواہش میں خاموش رہے تو اب کیا مجبوری ہے؟ تمام پارٹیوں کا اصل مسئلہ یہی ہے کہ ان میں نہ مشاورت کا کوئی انتظام ہے اور نہ مکمل غور کے بعد فیصلہ کرنے کی صلاحیت۔ خوشامدی فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوتے ہیں۔
اب موجودہ بحران کو ہی لے لیں۔ تمام آئینی ادارے موجود ہیں جن کے ذریعے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے لیکن انہیں باعمل بنانے کی بجائے نئے ادارے قائم کیے جا رہے ہیں جن کی کوئی ضرورت نہیں۔ عمران خان کو ایک ٹائیگر فورس کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ ان کے مخالفین پر دباؤ ڈالنے کے کام آ سکے۔ اور یہ مخالفین صرف سیاست دان نہیں بلکہ دوسرے بھی ہیں۔
اس فورس کی جگہ بلدیاتی اور سرکاری اداروں کو فعال کرنے کی ضرورت ہے جس میں ان کی دلچسپی ہے اور نہ حکمرانی کی صلاحیت۔ کسی بھی فوج میں حکمرانی کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی جس کا تجربہ ہم اپنی تاریخ میں کئی دفعہ کر چکے ہیں۔
فوج ایک خاص حد تک بحران میں کارآمد ہو سکتی ہے اور اس کے آگے ان کے پاس نہ صلاحیت ہے اور نہ آئینی اختیارات۔ میں اس کے خلاف ہوں کہ موجودہ اداروں کو استعمال کرنے کی بجائے ایک نیا ادارہ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر بنایا جائے، چاہے یہ عارضی ہی کیوں نہ ہو۔
میں نہیں سمجھتا اس سے موجودہ بحران پر قابو پایا جا سکے گا۔ ایک بات یہ بھی مشاہدہ میں آ رہی ہے کہ ریاست میں فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کی صلاحیت نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کا مظاہرہ روز ہمارے سامنے ہوتا ہے۔ جس کا زور چلتا ہے وہ خود کو ریاست اور قانون سے بالاتر سمجھتا ہے۔
موجودہ بحران سے دنیا کے کئی ممالک کو مسائل کا سامنا ہے اور سیاسی اداروں کی کمزوریاں سامنے آ رہی ہیں۔ ہر بحران میں نئے موقعے بھی پوشیدہ ہوتے ہیں۔ اس بحران کے بعد وہ ملک دنیا پر راج کریں گے جو اپنے اداروں کی خامیوں کو دور کریں گے اور اپنے نظام کو مزید بہتر کریں گے۔
پاکستان کے پاس بھی ایک اور موقع ہے کہ موجودہ جمہوریہ جو کام نہیں کر پا رہی اس کو ایک نئے اور بہتر نظام سے بدلا جائے۔ اس مقصد کے لیے سیاسی مذاکرات جلد از جلد شروع ہونے چاہیے۔ اسد عمر، عارف علوی، فردوس شمیم اور چوہدری سرور کے پاس ایک اور موقع ہے کہ صحیح فیصلے کریں اور اپنی پارٹی کو ان مذاکرات کی میز پر لائیں۔
دیگر پارٹیوں کی طرح ان پر بھی مکمل اعتبار نہیں کیا جا سکتا اس لیے وہ مذاکرات قابل قبول نہیں ہوں گے، جن میں ہم میز پر موجود نہ ہوں۔ عمران خان سے مجھے ایسی کوئی امید نہیں کہ وہ معاملات کو سمجھ پائیں۔ انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے۔